سوشل میڈیا کے دور میں دہشت گردی کافی تیزی سے بڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان جیسے ممالک کو غیر روایتی سکیورٹی چلینجز کا سامنا رہتا ہے۔
پالیسی کے نقطہ نگاہ سے دہشت گردی کی یہ بدلتی ہوئی لہر سکیورٹی خطرات کی درست تشخیص اور تدارک کو ایک مشکل کام بناتی ہے لہذا پاکستان کو دہشت گردی کے خطرات سے متعلق تجزیوں کو گہرائی کے ساتھ سیاق و سباق کے مطابق باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ، بنیادی اور سیکنڈری ڈیٹا کے ذرائع کی مسابقتی نوعیت، جھوٹ اور جعلی خبروں کی مقدار کو دیکھتے ہوئے دہشت گردی کا درست جائزہ لینا بھی اتنا ہی مشکل ہے۔
ضروری نہیں کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا مواد حقیقت پر مبنی ہو۔ اس کا بہت سا حصہ پروپیگنڈا، سازشی نظریات، اور غلط معلومات کے دائرے میں آتا ہے۔
اس پس منظر میں دہشت گردی میں مقامی اور علاقائی رجحانات کو ان کے سیاسی اور جغرافیائی پس منظر کو بغیر بڑے تصویری نقطہ نظر سے بیان کرنا گمراہ کن ہو سکتا ہے۔ دہشت گردی کا وسیع پیمانے پر تجزیہ پیچیدہ زمینی حقائق کو آسان تو بنا دیتا ہے لیکن یہ متعدد مقامی تغیرات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
پاکستان میں نفرت اور پرتشدد انتہا پسندی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، عسکریت پسند تنظیمیں، بنیاد پرست جماعتیں اور نسلی علیحدگی پسند تنظیمیں۔
پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی کے رجحانات کو افغانستان میں ہونے والی پیش رفت سے الگ نہیں دیکھا جا سکتا۔ جیسا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے ساتھ آپریشنل ماحول تیار ہوا ہے، اُسی طرح آپریشنل حکمت عملی، سوشل میڈیا پروپیگنڈہ آپریشنز، بھرتی کے طریقے اور ان گروپوں کی تنظیمی ترجیحات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کی دوبارہ اقتدار میں واپسی نے پاکستان میں عسکریت پسند گروپوں کو جلا بخشی ہے۔ اس لیے پاکستان میں شدت پسندی کے رجحانات کی بحث کو افغانستان میں گذشتہ دو سال کے پیش رفت سے الگ تھلگ نہیں دیکھا جا سکتا۔
بہرصورت، پاکستان کے انتہا پسند گروہ چاہے وہ جہادی ہوں یا نسلی علیحدگی پسند گروہ، سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔ وہ ان پلیٹ فارمز کو نہ صرف اپنے بیانیے، عالمی نظریات اور حملے کے دعووں کو پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں بلکہ بھرتی اور فنڈز جمع کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
اوپر بیان کیے گئے نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایک پیچیدہ اور ملٹی ایکٹر خطرے کا ماحول ہے جہاں بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک زیادہ رسائی اور انسداد دہشت گردی کی پالیسیوں کے اتار چڑھاؤ نے متشدد انتہا پسندی کو ایک نئی شکل دی ہے۔
گزشتہ ادوار میں، پرتشدد انتہا پسند اور نفرت انگیز گروہ آپریٹنگ ماحول کے تغیر و تبدل کے ساتھ ساتھ ضم اور تقسیم ہوتے رہے ہیں۔
مختصراً، سوشل میڈیا کی آمد نے پاکستان میں دہشت گردی اور متشدد انتہا پسندی کا منظرنامہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے جنوب مغربی اور شمال مغربی علاقوں میں سرگرم پرتشدد اور انتہاپسند تنظیموں نے اپنے ہم خیال گروپوں کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر روابط بھی استوار کر لیے ہیں۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اس طرح کی نیٹ ورکنگ نے خیالات کے تبادلے اور باہمی سیکھنے میں بھی سہولت فراہم کی ہے جس سے ان گروہوں کو اپنی رسائی بڑھانے اور اپنی آپریشنل حکمت عملیوں کو تیز کرنے میں مدد ملی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ورچوئل لرننگ کے ذریعے، یہ گروپ ایک دوسرے سے پرتشدد ہتھکنڈوں اور حملے کے نمونوں کی نہ صرف نقل کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔
مختصراً، جیسا کہ پاکستانی انتہا پسند گروہوں نے اپنے فائدے کے لیے سوشل میڈیا کو میدان جنگ کی حقیقی سے ورچوئل دنیا تک پھیلا دیا ہے، اس سے پاکستانی انسداد دہشت گردی کے حکام کے چیلنجز میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
پاکستانی ریاست طاقت کے استعمال سے ان گروہوں کو جسمانی طور پر تو مغلوب کر سکتی ہے، لیکن اس میں انتہا پسندی کے نظریات کے خلاف جوابی اور متبادل بیانیے کا فقدان موجود رہتا ہے۔
بنیاد پرست نظریات کا پھیلاؤ پاکستانی نوجوانوں کے ایک حصے کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے جو ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی غیر یقینی صورت حال اور معاشی اتار چڑھاؤ کے درمیان ایک کشمکش میں مبتلا ہیں۔
سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کمپنیاں نفرت انگیز مواد اور پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف سائبر سپیس میں پاکستان کی کی مدد کر سکتی ہیں۔
اسی طرح، سوشل میڈیا کمپنیاں مقامی سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر جمہوریت کی مضبوطی، سماجی لچک اور تنوع کے احترام، اختلاف رائے اور نظریاتی عقائد کے ذریعے انتہا پسندی کے خلاف متبادل بیانیہ تیار کرنے کی کوششوں میں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔
پاکستان میں نفرت انگیز مواد اور متشدد انتہا پسندی سے لڑنا نسل در نسل جدوجہد ہے۔ لہذا، کم لیکن ٹھوس نتائج پر توجہ مرکوز کرنا خطرے کی مجموعی تصویر کے ساتھ خود کو درست کرنے سے زیادہ اہم ہے۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ انسداد دہشت گردی و انتہا پسندی کی پالیسیوں میں چھوٹے لیکن ٹھوس نتائج بڑے لیکن الٹ جانے والے فوائد سے زیادہ پراثر ہوتے ہیں۔
مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔