دورہ افغانستان کا مقصد دونوں ممالک میں داخلی استحکام لانا ہے: مولانا فضل الرحمٰن

پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن نجی حیثیت میں افغانستان گئے ہیں۔ حکومت کسی بھی طرح سے ان کے دورے کی حمایت نہیں کر رہی۔‘

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن 12 جنوری 2024 کو کابل میں افغانستان کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے ساتھ ملاقات کے دوران (جے یو آئی ایف)

جمعیت علمائے اسلام نے جمعے کو کہا ہے کہ پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے افغانستان کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات کی ہے جس میں دونوں ملکوں کے داخلی و خارجی استحکام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

عرب نیوز کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن سات جنوری سے افغانستان کے دورے پر ہیں جس کا مقصد طالبان حکام سے بات چیت کرنا ہے۔ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات نچلی ترین سطح پر ہیں۔

جے یو آئی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے خودکش بم دھماکوں سمیت جان لیوا حملوں میں اضافے کے پیش نظر پاکستان سے بڑی تعداد میں ’غیر قانونی تارکین وطن‘ کو ملک بدر کرنے کے پاکستانی حکومت کے فیصلے کے پس منظر میں دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دوطرفہ تعلقات پر زور دیا۔

حقانی کے ساتھ ملاقات میں جے یو آئی رہنما کو افغانستان کی داخلی سلامتی کی صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔

جے یو آئی کے بیان کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے افغان وزیر داخلہ سے بات چیت میں کہا: ’ہمارے دورے کا مقصد دونوں ملکوں میں داخلی اور خارجہ استحکام لانا ہے۔ دونوں ملکوں میں تجارت کے فروغ سے امن اور خوشحالی آئیں گے۔‘

افغان وزیر داخلہ نے پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا۔

سراج حقانی کا کہنا تھا کہ ’ہم سرحدی معاملات پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون اور بات چیت کے ذریعے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جے یو آئی رہنما نے وفد کے ساتھ کابل میں بات چیت کی ہے لیکن پاکستانی حکومت نے اس دورے سے دوری اختیار کر لی ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن نجی حیثیت میں افغانستان گئے ہیں۔ حکومت کسی بھی طرح سے ان کے دورے کی حمایت نہیں کر رہی۔‘

اس سوال پر کہ کیا اسلام آباد پاکستانی طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ’تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتا جس نے ملک میں متعدد حملے کیے ہیں۔‘

عسکریت پسند گروپ ٹی ٹی پی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی افغانستان میں پناہ گاہیں ہیں، افغان طالبان سے الگ ہے لیکن اس کا قریبی اتحادی ہے۔

گذشتہ ایک سال کے دوران پاکستان نے بارہا افغان طالبان سے کہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکیں۔ کابل کسی بھی عسکریت پسند گروپ کی جانب سے اپنی سرزمین کے استعمال سے انکار کرتا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان