پاکستان افغانستان کنفیڈریشن کا منصوبہ جسے امریکہ نے رد کر دیا تھا

تاریخ کے طالب علم شاید یہ نہیں جانتے کہ ایک بار دونوں ممالک کی کنفیڈریشن اس لیے بنتے بنتے رہ گئی تھی کہ امریکہ کو خطرہ تھا کہ روس ایسا ہر گز نہیں ہونے دے گا۔

افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ اور فیلڈ مارشل ایوب خان 1960 میں پاکستان کے دورے کے دوران (پبلک ڈومین)

جب پاکستان اقوامِ متحدہ کا رکن بنا تو افغانستان دنیا کا وہ واحد ملک تھا، جس نے پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی تھی۔

اس کہ وجہ یہ تھی کہ جب برطانیہ نے تین جون کو تقسیم ہند کا اعلان کیا تو اس کے فوری بعد افغانستان نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دریائے سندھ تک کا علاقہ افغانستان کا حصہ ہے اور اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے کو افغانستان میں شامل ہونا چاہیے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ ڈیورنڈ لائن ایک عارضی بندوبست تھا جو نئے حالات میں مؤثر نہیں رہا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی بار کشیدگی پیدا ہوئی۔ سفارتی تعلقات بھی منقطع ہوئے لیکن پھر اچانک ایسا کیا ہوا کہ افغان وزیر خارجہ امریکہ کے پاس پاکستان افغانستان کنفیڈریشن کی تجویز لے کر پہنچ گئے؟

اس تجویز کو عملی جامہ کیوں نہیں پہنایا جا سکا، اس سے قبل یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ افغانستان پاکستان کا مخالف کیوں تھا اور پھر اس نے کنفیڈریشن کی جانب کیوں ہاتھ بڑھایا؟

 پشتون علاقوں پر افغان دعویٰ، جسے نہرو نے رد کر دیا

تقسیمِ ہند سے متعلق برطانوی سرکاری دستاویزات ’ٹرانسفر آف پاورز‘ (Transfer of Powers) کی جلد 11 کے صفحہ 98-97 پر لکھا ہوا ہے کہ ’افغانستان نے کابل میں برطانوی سفیر کے سامنے 11 جون کو یہ مطالبہ کیا کہ صوبہ سرحد کے عوام کو پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ شامل ہونے پر مجبور نہ کیا جائے، انہیں آزاد پشتونستان بنانے کا بھی اختیار دیا جائے۔‘

اسی روز یہ مطالبہ برطانیہ میں متعین افغان سفیر نے برطانوی وزیر خارجہ سے ملاقات میں بھی کیا۔

20 جون کو افغان حکومت نے برطانوی حکومت کو ایک مراسلہ بھی ارسال کیا، جس میں کہا گیا کہ ’صوبہ سرحد کے افغان دراصل افغانستان کا حصہ ہیں جنہیں گذشتہ صدی کی اینگلو افغان جنگوں کے دوران برطانیہ نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ افغانوں اور صوبہ سرحد کے عوام کا ہندوستان سے تعلق مصنوعی نوعیت کا ہے چنانچہ صوبہ سرحد کو یا تو آزاد ریاست بننے یا اپنے مادرِ وطن افغانستان میں شامل ہونے کا اختیار دیا جائے۔‘

جب افغانستان نے برطانوی حکومت کے سامنے یہ مطالبہ رکھا تو برطانیہ نے یہ معاملہ حکومتِ ہند کے سامنے رکھ دیا تاکہ افغانستان کو جو جواب دینا ہے اس میں انڈیا کو اعتماد میں لیا جا سکے۔

اس وقت ہندوستان کے وزیر خارجہ کا قلمدان نہرو کے پاس تھا۔ نہرو نے جو جوابی مراسلہ 29 جون کو برطانوی وزیر خارجہ کو ارسال کیا اس میں انہوں نے کہا: ’1893 کے ڈیورنڈ لائن معاہدے کے تحت ہند اور افغانستان ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے پابند ہیں اور تب سے اب تک اس پابندی پر عمل ہو رہا ہے لیکن اب افغان حکومت اپنے سفارتی ذرائع اور میڈیا سے صوبہ سرحد کے بارے میں جو مؤقف اختیار کر رہی ہے وہ ہندوستان کے داخلی معاملات میں سراسر دخل اندازی ہے، جس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔‘

اگلے روز انڈیا کی وزارت خارجہ نے ایک اور مراسلہ برطانوی وزیر خارجہ کو بھیجا جس میں کہا گیا کہ شمال مغربی سرحدی صوبے میں اگر چھوٹی سی ریاست قائم کی گئی تو یہ نہ صرف اپنا تحفظ نہیں کر سکے گی بلکہ پورے انڈیا کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دے گی۔ ہم افغانستان کے ساتھ مستقبل میں اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن اپنے معاملات میں مداخلت نہیں چاہتے۔ صوبہ سرحد دونوں میں سے کسی ایک ڈومینین کے اندر خودمختار صوبے کی حیثیت سے شامل ہو گا تاہم یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔‘

نہرو کی ان تجاویز کی روشنی میں برطانوی وزیراعظم ایٹلی کی جانب سے دو جولائی کو افغانستان کو جو جواب دیا گیا، اس میں کہا گیا کہ ’افغانستان جس علاقے کے بارے میں دعویٰ کر رہا ہے وہ انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے اور اس بات کو 1921 کے اینگلو افغان معاہدے میں افغانستان تسلیم کر چکا ہے، اس لیے اب صوبہ سرحد کے ریفرنڈم کے بارے میں افغانستان جو تجاویز دے رہا ہے وہ انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔‘

پاکستان بننے کے بعد کیا ہوا؟

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے تمام مسلمان ممالک کے ساتھ اسلامی بھائی چارے پر مبنی تعلقات بنانے کا اعلان کیا اور ان کے اس نعرے کو تمام مسلمان ممالک کی جانب سے ماسوائے افغانستان کے بھرپور پذیرائی ملی۔

افغانستان بدستور پشتونستان اور ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ اٹھاتا رہا۔ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے تحریک پاکستان کے نامور رہنما آئی آئی چندریگر کو، جو پاکستان کے مرکزی وزیر تجارت تھے، کابل میں سفیر بنا کر بھیجا۔

اسی سال سردار عبدالرب نشتر کو افغانستان کے جشن آزادی کی تقریبات میں شرکت کے لیے بھیجا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف اپنا مؤقف واپس لے لیا۔

لیکن اگلے سال یعنی 1949 میں افغان لویہ جرگہ نے اعلان کیا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتا، جس سے تعلقات میں پھر کشیدگی پیدا ہو گئی۔

افغان بادشاہ ظاہر شاہ نے کابل میں پاکستان کے خلاف تقریر کرتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پختون پارلیمنٹ قائم کر دی۔ افغانستان سے مسلح جنگجو 1950 میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں داخل ہو گئے جن کے خلاف پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔

اس کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات منقطع ہو گئے۔ 1951 میں وزاعظم لیاقت علی خان کے قتل میں ایک افغان شہری کے ملوث ہونے نے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو کشیدگی کی انتہاؤں پر پہنچا دیا اور افغانستان اور انڈیا پاکستان کے خلاف ایک صفحے پر آ گئے۔

امریکہ نے پاکستان افغانستان کنفیڈریشن کی مخالفت کیوں کی؟

ممتاز کاروباری و سیاسی شخصیت سلیم سیف اللہ خان جو کہ سابق وفاقی و صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں، کی خود نوشت ’زندگی تیرا شکریہ‘ میں صفحہ 255 پر درج ہے: ’میرے ماموں محمد اسلم خان خٹک 1958 کے مارشل لا سے پہلے کابل میں پاکستان کے سفیر تھے۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ انہوں نے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کو قائل کر لیا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو ایک کنفیڈریشن قائم کرتے ہوئے اکٹھا ہو جانا چاہیے۔

’انہوں نے مجوزہ فیڈریشن کے کچھ خدو خال بھی وضع کیے جس کے مطابق فیڈریشن کی سربراہی افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کو دی جانی تھی اور اس کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ پاکستان کے پاس ہونا تھا۔ بدقسمتی سے مارشل لا کے نفاذ سے کنفیڈریشن کا یہ منصوبہ وہیں کا وہیں رہ گیا اور سکندر مرزا کو، جو کنفیڈریشن کے اس خیال کے حامی تھے، اس وقت کے سپہ سالار جنرل ایوب خان نے جلا وطن ہونے پر مجبور کر دیا۔‘

سلیم سیف اللہ خان کی جانب سے بیان کی گئی اس کہانی کی تصدیق امریکہ کی خفیہ دستاویزات میں بھی کی گئی ہے۔ سی آئی اے نے جو دستاویزات 2005 میں افشا کیں ان میں ایک مراسلہ 15 اکتوبر 1954 کا ہے، جسے ایجنسی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شرمن کینٹ نے تحریر کیا ہے۔

اس میں لکھا ہوا ہے کہ ’افغانستان کے وزیر خارجہ نعیم خان نے امریکی سفیر ہنری لاج سے نیویارک میں ملاقات کی جس میں انہوں نے امریکہ سے پاکستان افغانستان کنفیڈریشن میں مدد کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف کنفیڈریشن ہی افغانستان کی بقا کی ضامن ہوسکتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مقتدر لوگ پہلے ہی اس امکان پر رابطے میں ہیں۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہو سکا تو یہ دونوں ملکوں کی بدقسمتی ہو گی۔ اس ضمن میں دونوں ممالک کے درمیان ورکنگ گروپ کی تجاویز کی روشنی میں ایک حتمی ڈرافٹ بھی تشکیل پا چکا ہے۔‘

مراسلے میں آگے چل کر درج ہے: ’گذشتہ ایک سال سے دونوں ملکوں کی کنفیڈریشن کے حوالے سے حکام کے درمیان متعدد ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔ فروری 1954 میں آغا خان نے پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد کو زور دے کر کہا کہ وہ کنفیڈریشن بنا کر افغانستان کے بادشاہ کو پاکستان کو صدر بنا لیں۔ اپریل میں نیویارک ٹائمز نے بھی خبر دی کہ دونوں ممالک کے ادغام کی کوششیں ایک سال سے جاری ہیں اور اب دونوں ممالک باہمی معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں، مگر دونوں ممالک کی جانب سے اس خبر کی تردید کی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’نو اکتوبر کو شہزادہ نعیم خان نے امریکی سفیر ہنری لاج سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان کو آمادہ کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ کنفیڈریشن کا منصوبہ دونوں ممالک کے لیے سود مند ہے، افغانستان کو روس کی جانب سے خطرہ ہے۔ دونوں جانب کے مذہبی حلقے خوش ہوں گے کہ ہمالیہ سے سمندرتک ایک متحدہ مسلم ریاست بنے گی، لیکن ہم ابھی تک اس منصوبے کی عملی شکل نہیں دیکھ رہے کیونکہ دونوں جانب سے کوششیں اس سطح کی نہیں ہیں جن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ بارآور ثابت ہوسکتی ہیں۔

’شہزادہ نعیم خان نے بھی امریکہ سے جو درخواست کی ہے وہ بھی ان کی ذاتی خواہش ہی معلوم ہوتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کہ عراق، شام اور اردن پہلی جنگ عظیم کے بعد سے کنفیڈریشن کا منصوبہ بناتے چلے آ رہے ہیں۔ عملی طور پر پاکستان اور افغانستان دونوں جانب سے اس بارے کوئی اہم پیش رفت ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ اگر دونوں ممالک کنفیڈریشن پر متفق ہو بھی جاتے ہیں تب بھی عملی طور پر ایسا کرنا بہت مشکل ہو گا۔

’روس کو اگر اس کی بھنک پڑ گئی تو وہ اسے اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان امریکی فوجی مدد لے رہا ہے جو روس کو کنفیڈریشن کی صورت میں کسی صورت قبول نہیں ہو گا۔ انڈیا بھی اس کی مخالفت کرے گا۔ انڈیا اس مقصد کے لیے افغان اور قبائلی رہنماؤں کو پیسہ دے کر اس منصوبے کا ناکام بنا دے گا کیونکہ وہ پہلے ہی پشتون رہنماؤں کو پاکستان کے خلاف مدد دے رہا ہے۔

’کنفیڈریشن کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان نئے تضادات جنم لیں گے، اس لیے یہ منصوبہ کچھ ذہنوں کی اختراع ہو سکتا ہے مگر اسے بڑی حمایت حاصل نہیں ہے۔ ‘

آج اس تجویز کو 70 سال ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان دوست حکومتیں بھی بنیں اور پاکستان دشمن بھی۔ پاکستان نے 30 سے 50 لاکھ افغانوں کو پناہ بھی دی مگر پھر بھی دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی خلیج ختم نہیں ہو سکی۔

تاریخ کے طالب علم شاید یہ نہیں جانتے کہ ایک بار دونوں ممالک کی کنفیڈریشن اس لیے بنتے بنتے رہ گئی تھی کہ امریکہ کو خطرہ تھا کہ روس ایسا ہر گز نہیں ہونے دے گا۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک  کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ