میں سات سال سے زیادہ عرصے سے لندن میں ٹیکسی چلانے والا سیاہ فام ڈرائیور ہوں۔ میں ایمان داری سے کہہ سکتا ہوں کہ اس شہر میں ڈرائیوروں کے حالات بلاشبہ پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہر نیا دن کوئی نیا مسئلہ سامنے لے کر آتا ہے جو میرے جیسے ڈرائیوروں کے راستے میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ ان حالات کا خواب ایک میئر نے دیکھا جنہوں نے ہماری زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ مشکل بنانا اپنا مشن بنا رکھا ہے۔
گذشتہ روز سابق وزیر ماحولیات اور لندن کے میئر کے عہدے کے لیے سابق امیدوار 48 سالہ زیک گولڈ سمتھ کے گاڑی چلانے پر پابندی عائد کردی گئی۔
اگرچہ یہ بات بری لگی، خاص طور پر کسی ایسے شخص کے معاملے میں جس کے ماحول پر مؤقف نے دارالحکومت کی سڑکوں پر ٹریفک کے مسائل پیدا کرنے میں کردار ادا کیا، مجھے سابق ٹوری رکن پارلیمنٹ کے ساتھ کچھ ہمدردی ہے اور میں ان کی تعریف بھی کروں گا۔
مجھے غلط مت سمجھیے۔ قانون قانون ہوتا ہے اور اگر آپ اسے بار بار توڑتے ہیں جس میں ایک ہی سڑک پر دوبار قانون شکنی شامل ہے تو آپ کو حیران نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے نتائج ہوں گے۔
لیکن لندن کی سڑکوں کے لیے بنائے گئے قوانین کے معاملے میں کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے وہ ڈرائیوروں کو گرفت میں لینے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
گو کہ گولڈ سمتھ کو دو سڑکوں پر (مسلسل) تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے پکڑا گیا۔ تاہم وہ 20 میل فی گھنٹہ کے زون میں بالترتیب 28 میل فی گھنٹہ اور 29 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہے تھے۔ یہ تیز رفتاری ہے؟ مجھے ذرا سانس لینے دیں۔
لندن کے میئر صادق خان کی جانب سے 20 میل فی گھنٹہ کی رفتار کی حد متعارف کروانے کے بعد لندن کو رواں ہفتے ڈرائیورز کے لیے دنیا کا سست ترین شہر قرار دیا گیا ہے۔
پیشے کے طور پر گاڑی چلانے والے کسی شخص کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ کاروں کو طویل وقت تک آہستہ آہستہ چلانے کے لیے نہیں بنایا گیا۔ دیر تک سست رفتار کے ساتھ گاڑی چلانا نامعقول اور تقریباً ناممکن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت ساری جگہوں پر آپ کو اس طرح رینگنے پر جرمانہ کیا جائے گا۔ خوش قسمتی سے میرے جیسے ٹیکسی ڈرائیور کے پاس رفتار کو قابو میں رکھنے کے آلات ہیں جو ہمیں حادثاتی طور پر رفتار کی حد کو توڑنے سے روکتے ہیں لیکن زیادہ تر ڈرائیوروں کو اس طرح کے آلات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی اس لیے وہ دھر لیے جاتے ہیں۔
لندن میں ڈرائیوروں کے لیے رفتار کی حد واحد مسئلہ نہیں۔ درحقیقت شاید یہ مسئلہ کم سنگین ہو۔ بات یہ ہے کہ سائیکل سواروں نے شہر پر قبضہ جما رکھا ہے اور میرے کام کو مکمل طور پر ڈراؤنا خواب بنا دیا ہے۔
شہر کے تمام علاقے جن میں سائیکل سواروں کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے تبدیلیاں کی گئیں وہاں ٹریفک مستقل طور پر جام رہتی ہے اور وہ سادہ سا سفر جس میں 10 منٹ لگتے تھے اب دو یا تین گنا زیادہ وقت لے رہا ہے۔
ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر اس صورت حال کا مطلب میرے ساتھ سفر کرنے والوں اور میرے لیے اضافی خرچہ ہے۔ اس تکلیف کا تو ذکر ہی نہیں جس کا اب ہم دونوں کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ٹوٹنھم کورٹ روڈ پر اب صرف بسیں اور سائیکلیں ہیں۔ مالیاتی مرکز بینک جنکشن وہ مرکزی مقام جہاں نو سڑکیں آپس میں ملتی ہیں۔ وہاں صرف بسیں اور سائیکلیں ہوتی ہیں۔
چیلسی میں سلوان سٹریٹ دو رویہ ہوا کرتی تھی لیکن اب ایک لین ختم کر دی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ نائٹس برج تک واپس جانا ایک بہت بڑا کام ہے۔
مقامات کی یہ فہرست جاری ہے لیکن کسی بھی ڈرائیور سے پوچھیں کہ سائیکل لین سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی سڑک کا نام بتائیں اور وہ پارک لین کا ذکر کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میں نہیں چاہتا کہ کوئی یہ سوچے کہ میں کسی قسم کا ماحول دشمن عسکریت پسند ہوں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوسکتی ہے کہ میں اصل میں ایسے مقامات کے لیے اقدامات کے حق میں ہوں جہاں کاربن کا اخراج بہت زیادہ کم ہو کیوں دن کے آخری حصے تک وہ واقعی مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
لندن شہر میں فضائی آلودگی ایک حقیقی مسئلہ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اور میرے بچوں کے لیے صاف، صحت مند ماحول یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
یہاں رہتے ہوئے آپ کبھی کبھار فضا میں موجود دھند دیکھ سکتے ہیں اور سینے میں سموگ کے اثرات کو محسوس کرسکتے ہیں۔
جتنی جلدی ہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کچھ کریں گے اتنا ہی ہم سب کے لیے بہتر ہو گا۔ میں خود الیکٹرک ٹیکسی چلاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہائبرڈ گاڑیاں مستقبل میں لوگوں کے لیے زیادہ سستا اور حقیقت پسندانہ انتخاب بن جائیں گی۔
میرا خیال ہے کہ اگر ہم گاڑیوں کا استعمال ترک کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے جا رہے ہیں تو ان لوگوں کے بارے میں تھوڑا سا زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے جو ان سے براہ راست متاثر ہوں گے۔
آپ صرف ڈرائیوروں کو اس وقت پکڑنے کے لیے کہ جب ان کے لیے رفتار بڑھانا ضروری ہو، غیرمعقول اقدامات نہیں کرسکتے ہیں۔
یہ صورت حال ان کے لیے اورشہر کے لیے جائز نہیں۔ لوگوں کو جرمانے یا گرفتار ہونے کے خوف کے بغیر وہاں جانے کی اجازت ہونی چاہیے جہاں وہ جانے کی کوشش کر رہے ہوں اور ان کے لیے یقینی طور پر دو گھنٹے کی تاخیر کے خوف کے بغیر مطلوبہ مقام تک پہنچنا ضروری ہو۔
خیال کیا جاتا ہے کہ لندن ایک ایسا شہر ہے جو تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن اس وقت یہ دلدل میں دھنس چکا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent