امریکہ نے 11 ستمبر 2001 کی اٹھارویں برسی کے موقع پر پاکستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سربراہ نور ولی سمیت ایک درجن عسکریت پسندوں کو ’عالمی سطح پر دہشت گرد‘ قرار دے دیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق تحریک طالبان پاکستان سمیت ماضی میں دہشت گرد قرار دی جانے والی کئی تنظیموں کے درجن بھر رہنماؤں کو بھی ’خصوصی طور پر دہشت گرد‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان میں حماس، حزب اللہ، فلسطینی اسلامی جہاد، دولت اسلامیہ، دولت اسلامیہ فلپائن، دولت اسلامیہ مغربی افریقہ اور تحریک طالبان پاکستان شامل ہیں۔
نور ولی جنہیں مفتی نور ولی محسود کے طور پر بھی جانا جاتا ہے کو جون 2018 میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما ملا فضل اللہ کی امریکی ڈرون حملے میں افغانستان میں ہلاکت کے بعد بطور نئے رہنما تعینات کیا گیا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے بیان کے مطابق ٹی ٹی پی نے پاکستان بھر میں کئی دہشت گردانہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
امریکہ ستمبر 2010 میں تحریک طالبان پاکستان کو پہلے ہی دہشت گرد قرار دے چکی ہے۔
اس امریکی فیصلے کے بعد ’دہشت گرد‘ قرار دیئے جانے والے افراد کو مزید حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے سے روکنے میں مدد ملے گی۔ امریکی دائرے اختیار میں ان افراد کی تمام جائدادیں اور اثاثے منجمد ہوں گے اور امریکی شہری ان افراد کے ساتھ کاروبار یا تعلق استوار نہیں کرسکیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دیگر دہشت گرد قرار دیئے جانے والوں میں حماس کے رہنما مروان عیسیٰ، فلسطین اسلامی جہاد کے محمد الہندی، القدس بریگیڈ کے باحا عبول عطا، علی کراکی، حزب اللہ کے محمد حیدر، فواد شکر اور ابراہیم عاقل، خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم کے حاجی تاثیر، دولت اسلامیہ مغربی افریقہ کے ابو عبداللہ ابن عمر البرانوی، فلپائن میں دولت اسلامیہ کے رہنما ہاتب حاجان سوادجان، القاعدہ سے وابستہ تنظیم حوریث الدین اور حوریس الدین کے فاروق السوری شامل ہیں۔
امریکہ کو یقین ہے کہ ان افراد کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے سے انہیں قانون نافذ کرنے میں مدد ملے گی۔ بیان کے مطابق امریکی حکومت اس کے اختیار میں جتنے بھی ممکنہ آپشنز بعشمول معاشی پابندیوں کو استعمال کرتے ہوئے ان افراد اور تنظیموں کو ہدف بنائے گی۔
نور ولی محسود کو فروری 2018 میں خالد سجنا کی ہلاکت کے بعد حلقہ محسود کے شدت پسندوں کا امیر مقرر کیا گیا تھا۔ مفتی نور ولی سابق امیر بیت اللہ محسود کے قریبی ساتھی تھے اور ماضی میں تحریک کی اہم ذمہ داریاں سنبھالتے آ رہے ہیں۔
41 سالہ مفتی نور ولی نے طالبان کی تاریخ پر ایک کتاب بھی تحریر کی تھی جس میں کئی اہم انکشافات جیسے کہ بےنظیر کے قتل میں ٹی ٹی پی کا ہاتھ اور فنڈنگ کہاں کہاں سے ہوتی تھی سامنے آئے ہیں۔
نور ولی محسود جنوبی وزیرستان کے علاقے تیارزہ میں پیدا ہوئے اور وہ فیصل آباد، گوجرانوالہ اور کراچی کے مختلف مدارس میں زیر تعلیم رہ چکے ہیں۔
مفتی نور ولی محسود نے حال ہی میں 690 صفحات پر مبنی ’انقلاب محسود، ساؤتھ وزیرستان - فرنگی راج سے امریکی سامراج تک‘ نامی ایک تفصیلی کتاب لکھی تھی۔
اس کتاب میں پہلی مرتبہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو پر کارساز، کراچی اور راولپنڈی میں حملوں کی بھی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ اس سے قبل طالبان اس سے انکار کرتے رہے ہیں۔