70 سالہ مغلی صوفی اپنے گرفتار بیٹے رفیق سے ملنے کی آس میں کئی گھنٹوں سے سری نگر کی سنٹرل جیل کے باہر انتظار کر رہی ہیں۔
ان کے 42 سالہ بیٹے کو 28 اگست کی شب سری نگر کے علاقے ڈنڈرخا سے ایک پولیس چھاپے کے دوران اٹھایا گیا تھا جس کے بعد وہ پہلی بار رفیق سے ملاقات کر سکیں گی۔
صوفی نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ کو بتایا: ’وہ (بھارتی پولیس) آدھی رات کو دیواریں پھلانگ کر ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور کسی پیشگی نوٹس کے بغیر میرے بیٹے کو اٹھا کر لے گئے۔‘
یہ بتاتے ہوئے 70 سالہ بزرگ خاتون آب دیدہ ہو گئیں۔ رفیق ان کے گھر کے واحد کفیل تھے اور اب ان کی والدہ کو مستقبل کے حوالے سے کئی خدشات لاحق ہیں۔
جیل کے باہر اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے انتظار کرنے والی غمزدہ ماں نے بتایا: ’وہ بے قصور ہے اور اس نے بھارت مخالف سرگرمیوں میں کبھی حصہ نہیں لیا۔ میرا بیٹا ایک مستری ہے جو اپنے والد کی وفات کے بعد مشکل حالات میں بڑا ہوا ہے۔ بچپن سے ہی پورے کنبے کی ذمہ داری اس کے کندھے پر آ گئی تھی۔‘
صوفی نے بتایا کہ رفیق کو ان کے 16 سالہ بھانجے عمیر کی جگہ گرفتار کیا گیا جن پر بھارتی فورسز نے مظاہروں کے دوران سنگ بازی کرنے کا الزام لگایا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’وہ [بھارتی پولیس اہلکار] ہم پر چلا رہے تھے اور عمیر کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ جب وہ انہیں ڈھونڈنے میں ناکام رہے تو وہ عمیر کی جگہ میرے بیٹے کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔‘
نوجوان کشمیریوں کی جانب سے بھارتی فورسز پر سنگ بازی کو بھارت کے تسلط کے خلاف ان کی مزاحمت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کے جواب میں بھارتی فورسز ان کو پیلیٹ گنز، فائزنگ، آنسو گیس اور شیلنگ سے نشانہ بناتی ہے۔
صوفی کا کہنا تھا کہ عمیر ان کے گھر سے چار کلو میٹر دور رہتے ہیں اور اپنے چچا کی گرفتاری کے بعد کہیں چھپ گئے ہیں۔
بزرگ خاتون نے کہا کہ انہیں حکام کی جانب سے ابھی تک آگاہ نہیں کیا گیا کہ ان کے بیٹے کو سلاخوں کے پیچھے کب تک رکھا جائے گا۔
سری نگر کی اس جیل میں قیدیوں کی گنجائش 360 ہے لیکن عام طور پر یہاں 500 سے زیادہ قیدی رکھے جاتے ہیں۔
جیل کے ایک پولیس افسر کا کہنا تھا: ’ہفتے میں ایک بار قیدیوں کو ان کے صرف تین رشتے داروں سے 30 منٹ تک ملنے کی اجازت ہے۔‘
اچانک جیل کے بلند دروازوں کے پیچھے سے صوفی کا نمبر پکارا گیا اور وہ اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے بھاگ پڑیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’دی انڈپینڈنٹ‘ کو حاصل ہونے والے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی میں مسلسل کرفیو نما صورتحال ہے اور اب تک 3500 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
ان میں سے 292 افراد کو کشمیر کے ظالمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے چھ ماہ تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے اور انہیں بھارت کے مختلف حصوں میں قید کیا جاسکتا ہے۔
بھارتی پولیس کے ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ کا کہنا ہے: ’ہماری حراست کی شرح، [ماروائے قانون] اٹھانے کی شرح سے بہت کم ہے۔ ہمارے ساتھ صرف چند سو افراد موجود [قید] ہیں۔‘
جیل کے باہر ایک نوجوان خاتون حسینہ اپنے 36 سالہ بھائی شبیر احمد غنی سے ملنے کی منتظر ہیں جن کو پانچ اگست کے فیصلے کے ایک دن بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
اپنے بھائی سے ملنے کے لیے تقریباً 50 کلومیٹر پیدل سفر طے کر کے سری نگر پہنچنے والی حسینہ نے کہا: ’انہیں [بھارتی فورسز کو] خدشہ ہے کہ میرا بھائی نوجوانوں کو بھارت کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اکسائے گا۔‘
حسینہ جیل میں اپنے بھائی کی صحت کے حوالے سے فکر مند ہیں کیونکہ ان جسم میں صرف ایک ہی گردہ ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’شبیر جیل کی صعوبتیں برداشت نہیں کر پائے گا۔‘
قریب ہی ایک اور شخص اقبال تیلی بھی اپنے بھائی سے ملاقات کے منتظر ہیں جن کی کہانی بھی باقیوں سے ملتی جلتی ہے۔
جنوبی کشمیر کے میر میدان گاؤں سے تعلق رکھنے والے اقبال کے مطابق ان کے 19 سالہ بھائی مدثر مقبول کو گذشتہ ماہ احتجاج کے دوران تین دیگر نوجوانوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔
اپنے والدین اور بہن کے ساتھ جیل پہنچنے کے لیے قریب 90 کلومیٹر کا سفر طے کر کے پہنچنے والے اقبال نے بتایا: ’(سیکیورٹی فورسز) نے میرے بھائی پر پولیس اور نیم فوجی دستوں پر پتھر پھینکنے کا الزام عائد کیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں: ’ہم نے اننت ناگ کی مقامی عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی جس میں استدعا کی کہ مقبول بے قصور ہے۔‘
مقبول کو بھی پی ایس اے قانون کے تحت قید میں رکھا جارہا ہے اور جب تک کہ ہائی کورٹ اسے کالعدم قرار نہیں دیتی تب تک مقبول کا کئی مہینوں تک جیل میں رہنے کا امکان ہے۔
گرفتاریوں کی اس بے مثال لہر کے بعد متنازع خطے کی جیلیں گنجائش سے زیادہ بھر چکی ہیں اور حکام نے سینکڑوں کشمیریوں کو بھارت کی مختلف جیلوں میں بھجوا دیا ہے۔
زیر حراست افراد کے خاندانوں نے الزام لگایا ہے کہ کشمیری قیدیوں کو بھارتی جیلوں میں بدترین ہراسانی اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
5 اگست کے بعد سے خطے میں لاک ڈاؤن ہے، انٹرنیٹ اور مواصلاتی نیٹ ورکس معطل ہیں۔ چند سکول کھلے ہیں لیکن بہت کم طلبہ یہاں پہنچ پا رہے ہیں جبکہ وادی میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی بند پڑی ہے۔
ہندو قوم پرست وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف ردعمل کے خوف سے بھارتی سکیورٹی کے ہزاروں اہلکار کشمیر کی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں۔
ان سنگین حالات میں بھارتی حکام نے اب تک صرف ایک شہری کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے لیکن کئی خاندانوں نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ کو بتاتے ہوئے الزام لگیا کہ ہلاکتوں کی تعداد کئی زیادہ ہے جن کو جان بوجھ کر دبایا جا رہا ہے۔
© The Independent