سمندر کی تہہ میں 180 سال پرانے جہازوں سے سینکڑوں اشیا دریافت

جہاز کے ملبے کی تازہ ترین تلاش مکمل کرنے والی زیر آب ٹیم پارکس کینیڈا کی جانب سے دریافت کی گئی اشیا میں پستول، ادویات کی بند بوتلیں، ماہی گیری کا سامان اور ملاحوں کے زیر استعمال الماریاں شامل ہیں۔

ماہر آثار قدیمہ مارک آندرے برنیئر زیر آب ایریبس پر ملنے والی اشیا کا جائزہ لے رہے ہیں (بریٹ سیمور/ پارک کینیڈا)

آثار قدیمہ کے ماہرین نے آرکٹک کینیڈا میں ڈوبنے کے تقریباً دو صدیوں بعد بحری جہاز ایچ ایم ایس ایریبس کی باقیات کے اندر محفوظ حالت میں موجود سینکڑوں اشیا دریافت کی ہیں۔

جہاز کے ملبے کی تازہ ترین تلاش مکمل کرنے والی زیر آب ٹیم پارکس کینیڈا کی جانب سے دریافت کی گئی اشیا میں پستول، ادویات کی بند بوتلیں، ماہی گیری کا سامان اور ملاحوں کے زیر استعمال الماریاں شامل ہیں۔

ایچ ایم ایس ایریبس اور ایچ ایم ایس ٹیرر 1845 میں ایک مہم کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس مہم کا آغاز کینٹ میں گرین ہائتھ سے ہوا۔ مہم کا مقصد شمال مغربی راستہ تلاش کرنا تھا۔

یہ ایک قطبی راستہ ہے جو بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کو جوڑتا تھا۔ مہم کی قیادت برطانوی رائل نیوی آفیسر اور آرکٹک ایکسپلورر سر جان فرینکلن کر رہے تھے۔

یہ جہاز واپس آنے میں ناکام رہے۔ 1850 کی دہائی میں سکاٹش ایکسپلورر جان رے نے مقامی لوگوں کا انٹرویو کرنے کے بعد دریافت کیا کہ فرینکلن 1847 میں جان سے گئے۔ ان کے جہاز دو سال تک سمندری برف میں پھنسے رہے تھے۔

مانا جاتا ہے کہ عملے کے تمام 129 ارکان نے بھی جان گنوائی۔ اس سانحے کو برطانیہ کی جانب سے قطب کی کھوج کی تاریخ کے بدترین سانحات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

2014  میں ایریبس اور 2016 میں ٹیرر نامی بحری جہازوں کی دریافت کے بعد غوطہ خوری کے مشن کو تیز کر دیا گیا کیوں کہ شدید طوفانوں کی وجہ سے جہازوں کا ملبہ خراب ہو رہا تھا۔

غوطہ خوروں نے گذشتہ سال ستمبر میں ایچ ایم ایس ایریبس تک پہنچنے کے لیے 68 مشن کیے جو ٹیرر کے 24 میٹر کے مقابلے میں سطح سمندر سے صرف 11 میٹر نیچے موجود ہے۔ ایریبس آرکٹک کینیڈا میں ولموٹ اور کرمپٹن خلیج میں گہرے پانی میں پایا گیا۔

ماہرین آثار قدیمہ نے سیکنڈ لیفٹیننٹ ہنری ڈونڈا لی ویسکونٹے کے کیبن کے اندر درست حالت میں موجود تھرمامیٹر، چمڑے سے بنا کتاب کا کور اور پیتل سے مزین مچھلی پکڑنے کا راڈ جیسی اشیا دریافت کیں۔

دریں اثنا چمڑے کا جوتا، مرتبان اور ڈھکن بند دوا کی شیشی ایسے حصے سے ملے ہیں جس کے بارے میں قیاس ہے کہ وہ کپتان کا سامان رکھنے کا کمرہ ہے۔

مزید تلاش میں بحری جہاز کے اگلے حصے میں موجود سیلرز کے زیر استعمال الماری پر توجہ مرکوز کی گئی۔ جہاز کے اس حصے میں بنیادی طور پر عملہ مقیم تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہرین آثار قدیمہ نے اس حصے سے پستول، ادویات کی بوتلیں اور سکے دریافت کیے۔ احتیاط سے تیار کی گئی دستاویزات میں ہزاروں طاقتور ڈیجیٹل تصاویر بھی شامل کی گئیں جنہوں ٹھیک ٹھیک تھری ڈی ماڈلز کی بنیاد تشکیل دی جو سائٹ کی بدلتی ہوئی حالت کو سمجھنے کے لیے اہم ہے۔

اس مہم کی قیادت کرنے والے جوناتھن مور نے غوطہ خوری میں پیش آنے والی پر روشنی ڈالی جب کہ جہازوں ملبہ مسلسل خراب ہو رہا ہے۔

جوناتھن مور نے کہا کہ ’جہاز کے بالائی عرشے کے کچھ حصے حال ہی میں گر گئے اور دیگر حصے خطرناک حد تک ایک جانب جھک رہے ہیں۔ وہاں تک پہنچنا مشکل ہو رہا ہے۔‘

احتیاط کے ساتھ کی جانے والی تحقیق میں اب تک کوئی انسانی باقیات برآمد نہیں ہوئیں۔ 2018 میں برطانیہ کی جانب سے کینیڈا کو تحفے میں دیے گئے بحری جہازوں کے ملبے کی نگرانی کینیڈا کے ارکٹک علاقوں کے لوگ اور پارکس کینیڈا مشترکہ طور پر کر رہے ہیں جس کا مقصد اس تاریخی دریافت کے معاملے میں مشترکہ اور معتبر نقطہ نظر یقینی بنانا ہے۔

مور نے کہا کہ وہ ایریبس پر تحقیق کرنے کے بعد ہی ٹیرر پر تحقیق کریں گے۔

انہوں نے کہا: ’ٹیرر سطح سمندر سے 24 میٹر نیچے موجود ہے لیکن ایریبس صرف 11 میٹر نیچے ہے اور ہماری سب سے زیادہ توجہ اسی پر ہے۔ ہم اس پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس کی کہانی کی پرتوں کو ایک ایک کر کے سامنے لائیں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی