پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات کیس کے فیصلے اور پارٹی سے بلا چھننے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک باقاعدہ مہم چلائی گئی جس میں انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔
فیصلوں پر قانونی تنقید جائز ہے اور ہر کسی کا حق ہے کہ وہ فیصلے کے بارے میں ایک رائے رکھے یا دوسری لیکن بطور صحافی کسی کی کردارکشی کرنے کے لیے سازشی مفروضے گھڑ کر سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر چلانا کہاں کی صحافت ہے؟
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 65 کے قریب صحافیوں اور ایکٹیوسٹس کو ’عدلیہ کے خلاف مذموم مہم‘ چلانے پر نوٹسز بھجوائے اور ٹھیک اگلے دن چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوموٹو نوٹس لیا اور ایف آئی اے کو نوٹسز واپس لینے کے احکامات جاری کیے۔
اس پوری سماعت میں چیف جسٹس کے ریمارکس یقیناً قابل تحسین تھے۔ انہوں نے خود کو تنقید سے مبرا نہیں قرار دیا اور جائز تنقید کو اپنے لیے اصلاح کا ذریعہ قرار دیا۔
لیکن یہاں میں بطور صحافی اس بات کا اقرار کروں گا کہ ہمارے کچھ ساتھیوں اور یوٹیوبرز نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کردار کشی میں صحافتی اقدار کا جنازہ نکالا۔
صحافت پر کسی قسم کی قدغن پر سب سے پہلے آواز بلند کرنے والوں میں ہوں گا لیکن صحافت کے نام پر یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو رہا ہے اس نے صحافتی اور انسانی اقدار دونوں کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔
ویڈیو کا ٹائٹل کچھ اور اندر باتیں کچھ اور، ایسی ایسی سازشی مفروضے گھڑ لیے جاتے ہیں کہ ذہن ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔
کسی نے جسٹس اعجاز الحسن کے استعفے کو انٹرا پارٹی انتخابات کے فیصلے کا انعام قرار دے دیا تو کسی نے یہ ثابت کر دیا کہ اصل میں بلے کا نشان چھن جانا لندن پلان کا حصہ تھا اور قاضی فائز عیسی اس وقت لندن پلان کے تحت ہی اسٹیبلشمنٹ کے احکامات پر چل رہے ہیں۔
ویوز چیک کریں تو لاکھوں میں اور خوف ناک بات یہ کہ ایسے لوگ موجود ہیں جو ان سازشی مفروضوں اور جھوٹ کو آگے پھیلاتے رہتے ہیں۔
مذموم سازش کے تحت کسی کی ہتک اور کردارکشی کی سزا ہونی چاہیے اور بطور صحافی اگر میں اس میں اپنا کردار ادا کروں تو مجھے سزا ملنی چاہیے۔
ہماری صحافت آج دو واضح حصوں میں بٹ چکی ہے ایک صحافی صاحب نے یہاں تک فرما دیا کہ خواجہ آصف سیالکوٹ سے ہیں بہتر ہوتا کہ انڈیا کے ساتھ لڑائی میں سیالکوٹ پر انڈیا قابض ہو جاتا۔
اب یہ کون سی صحافت ہے؟ ایک پارٹی کی محبت اور دوسری کی نفرت میں ملک پر دشمن کے قبضے کی بات کرنا صحافت نہیں کھلی ایکٹیوزم ہے اور ایسے صحافی کے لیے بہتر ہے کہ اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے باقاعدہ صحافتی ونگ بنا لیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک چھوٹی سی مثال دینا چاہوں گا کہ گذشتہ روز میں نے منیب فاروق کے شو میں ان خیالات کا اظہار کیا کہ عمران خان کم بیک کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں نو مئی کو ہونے والی غلطی تسلیم کر کے اس پر معافی مانگنی پڑے گی ورنہ ان کی واپسی مشکل ہو گی۔
شو آن ایئر ہونے کے بعد سیاسیت ڈاٹ پی کے نامی ویب سائٹ/ ٹوئٹر پر مجھ سے یہ غلط کوٹ منسوب کر دیا گیا کہ عمران خان فوج سے معافی مانگیں تو بات بنے گی۔
یعنی میں جو بات نو مئی کے تناظر میں کہی اسے اپنے مقصد کے لیے نکال دیا گیا اور یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں ایک بڑے نیوز چینل نے فوراً یہ بات کاپی کر کے چلا دی۔
آخر میں کسی نے میرے نام کے ساتھ یہ ٹویٹ کر دیا کہ عادل شاہ زیب نے کہا کہ تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت سیاست سے آؤٹ کر دینا چاہیے؟
اب اندازہ لگا لیں مجھ سے منسوب ان غلط جملوں پر تحریک انصاف کی گالم گلوچ بریگیڈ نے کتنی ہزار گالیوں سے نوازا ہو گا؟
لیکن جنہوں نے غلط کام کیا ان کی کیا کوئی سزا نہیں ہونی چاہیے؟ اس چھوٹی سی مثال سے اندازہ لگا لیں کہ جھوٹ کو کیسے بنا کر کیسے پھیلا جارہا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔