آج کل پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کے خلاف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنچ کے فیصلے اور جماعت کو انتخابی نشان نہ دیے جانے کا کافی چرچہ ہے۔
لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ملک کی جو بھی سیاسی جماعت ہو وہ سلیکٹیو موڈ پر ہی چلتی ہے یعنی الیکٹ نہیں سلیکٹ کرو۔ اہم پوزیشنز پر وہی چہرے برسوں تک نظر آتے ہیں اور انٹرا پارٹی الیکشن اصل میں الیکشن نہیں بلکہ ایک قانونی تقاضا پورا کرنے کے لیے کروائے جاتے ہیں۔
خاندانی سیاست اور حاکمانہ سیاسی کلچر کے باعث سیاسی جماعتیں لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنے کے بجائے امرا کے فائدے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اور نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ریاست اور معاشرے کو جمہوری بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ جمہوری معاشروں میں لوگ سیاسی جماعت بناتے ہیں جو طاقت کے حصول کے لیے سیاسی طور پر لڑتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہاں پر جماعت حکمران اشرافیہ کی سرپرستی میں قائم کی جاتی ہے۔
انٹرا پارٹی الیکشن اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے اشرافیہ کی سیاسی جماعت پر گرفت کو مستقل نہیں ہونے دیتے اور وہ ممبر جو جماعت کی پالیسیوں سے ناخوش ہوں وہ انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے اس کا اظہار کریں اور جماعت اور ملک دونوں ہی کو جمہوریت کے راستے پر رکھیں۔
چلیں دیکھتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف میں انٹرا پارٹی الیکشنز کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن
نواز لیگ کا آئین کہتا ہے کہ جماعت میں ہر چار سال بعد انٹرا پارٹی انتخابات ہوں گے لیکن اپنے ہی آئین کے خلاف جتے ہوئے نواز لیگ نے دس سال بعد انٹرا پارٹی الیکشن 2011 میں کرائے۔ یہ انتخابات بھی صرف الیکشن کمیشن کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کروائے گئے جن میں نواز شریف کو بلا مقابلہ پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ پارٹی کے آئین کے مطابق اگلے الیکشن 2015 میں ہونے تھے لیکن یہ انتخابات 2016 میں کرائے گئے۔ 2011 کی طرح 2016 میں بھی نواز شریف کو بلا مقابلہ صدر منتخب کیا گیا۔ اور پارٹی کے تمام عہدوں پر شریف خاندان کے خاص لوگ منتخب ہوئے۔
2015 میں سیاسی جماعتوں میں جمہوریت پر پلڈیٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ سات دیگر جماعتوں سے موازنے میں مسلم لیگ نواز میں انٹرا پارٹی جمہوریت سب سے کمزور ہے۔
جماعت کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا ڈھائی سال سے اجلاس نہیں ہوا جبکہ نیشنل کونسل کا اجلاس 2011 سے نہیں ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ تواتر سے دوسری بار ہے کہ نواز لیگ کو انٹرا پارٹی جمہوریت کمزور ہونے کا اعزاز ملا ہے۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ جماعت میں طاقت صرف صدر کے ہاتھ میں ہے جبکہ چیئرمین اور نائب چیئرمینوں کے ہاتھ میں کوئی طاقت نہیں ہے۔ تنقید کو رد کر دیا جاتا ہے اور زیادہ تر فیصلے سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی میں مشاورت کے بغیر ہی لے لیے جاتے ہیں۔
اسی طرح جب 2017 میں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے ڈس کوالیفائی کیا تو پارٹی کے صدر کا عہدہ خالی ہوا اور اس پر شہباز شریف کو صدر منتخب کیا گیا۔ ایک بھائی سے دوسرے بھائی کا صدر بننا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جماعت میں جمہوریت نہیں بلکہ خاندانی نظام ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی
پی پی پی 1967 میں وجود میں آئی اور اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ ان کے بعد 1979 میں نصرت بھٹو پارٹی صدر بیں اور وہ 1988 تک رہیں۔ ان کے بعد بینظیر بھٹو 1988 میں پارٹی کی صدر بنیں اور 2007 تک رہیں۔ ان کے بعد بلاول بھٹو پارٹی چیف بنے اور ان کے شوہر آصف علی زرداری شریک چیئرمین۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جماعت کا آئین کہتا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن ہر تین سال بعد ہوں گے لیکن اس سارے عرصے میں الیکشن نہیں ہوئے اور عہدے نوٹیفیکیشن کے ذریعے بھرے گئے۔ 2002 میں جنرل مشرف کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے لازمی قرار دیے جانے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کا وجود ہوا۔ بینظیر بھٹو پی پی پی کی صدر ہی رہیں اور مخدوم امین فہیم اور راجہ پرویز اشرف بلامقابلہ صدر اور سیکریٹری جنرل بنے۔
پی پی پی پی کے آئین کے مطابق ہر دو سال بعد الیکشن ہونے ہیں لیکن اس جماعت کے گذشتہ تین الیکشن 2007 ، 2013 اور 2017 میں ہوئے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ انتخابات الیکشن کمیشن کی خاطر ہی ہوئے۔ اور زیادہ تر عہدیدار دوبارہ بلامقابلہ ہی منتخب ہو گئے۔
پلڈیٹ کی رپورٹ نے پی پی پی کو انٹرا پارٹی جمہوریت کے حوالے سے تیسری کمزور ترین جماعت قرار دیا۔ اور یہ بھی کہا کہ جماعت میں موروثی سیاست رچی بسی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف
پی ٹی آئی 1996 میں وجود میں آئی اور اس کے بانی عمران خان ہیں۔ جماعت کے آئین کے مطابق جماعت کے الیکشن ہر چار سال بعد ہونے ہیں۔ لیکن اس جماعت میں پہلا انٹرا پارٹی الیکشن 2012-13 میں ہوا جبکہ دوسرا 2017 میں اور تیسرا 2023 میں۔ اگرچہ ان دونوں انتخابات پر تنقید کی گئی لیکن یہ کریڈٹ پی ٹی آئی کو جاتا ہے کہ اس نے پارٹی میں جمہوری نظام میں تمام پارٹی ورکرز کو شامل کیا۔
دیگر جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی میں بھی سارے فیصلے چیئرمین ہی لیتا ہے۔ پلڈیٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی پاکستان کی تیسری سب سے زیادہ جمہوری پارٹی ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔