ایلون مسک نے کہا ہے کہ ان کی کمپنی نیورالنک نے کمپیوٹر کو کسی کے دماغ سے منسلک کر دیا ہے۔
نیورالنک کو امید ہے کہ وہ دماغ اور کمپیوٹر کے درمیان ایک انٹرفیس تیار کر لے گی، جسے انسانوں میں لگایا جا سکے گا۔ ایسا کرنے سے وہ اپنے خیالات کے ذریعے کمپیوٹر کو ہدایات بھیج اور کمپیوٹر سے ہدایات وصول کر سکتے ہیں۔
اب ایلون مسک کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کو ایک انسان پر آزمایا گیا ہے۔ اب تک اس سسٹم کو صرف جانوروں پر آزمایا گیا تھا۔
انہوں نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ گذشتہ روز پہلے انسان میں نیورالنک سے (سسٹم) امپلانٹ کیا گیا اور وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا یہ سسٹم پہلے سے ہی اس شخص کے دماغ میں سرگرمی کا پتہ لگا رہا تھا۔ ’ابتدائی نتائج نیورون سپائیک کا پتہ لگانے کے لیے امید افزا ہیں۔‘
ایلون مسک نے اس تجربے کے بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی یہ بتایا کہ پہلی چپ لگوانے والا شخص کون تھا یا ٹیکنالوجی کیا تھی۔ اس اعلان کے بعد انہوں نے دوبارہ سے گیمنگ کے بارے میں ٹویٹس کرنا شروع کردیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیورالنک نے گذشتہ سال کہا تھا کہ اس نے انسانوں پر اپنی ٹیکنالوجی کے پہلے تجربات کے لیے امیدواروں کا انتخاب شروع کر دیا ہے۔
اس وقت، اس نے تجویز دی تھی کہ وہ ایسے لوگوں کی تلاش میں ہے جو ’سروائیکل یعنی ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ یا امیوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس (اے ایل ایس) کی وجہ سے دونوں بازوؤں اور دونوں ٹانگوں کا فالج میں مبتلا ہوں۔‘
نیورالنک کو 2016 میں اس امید کے ساتھ قائم کیا گیا تھا کہ انسانوں کے لیے مشینوں کے ساتھ انٹرفیس کرنے کا ایک نیا طریقہ تخلیق کیا جا سکے۔
ایلون مسک نے تجویز دی کہ مثال کے طور پر اس سے لوگوں کو ورچوئل رئیلٹی کو اپنے دماغ کے ساتھ ضم کرنے کا ایک طریقہ مل سکتا ہے۔
جب سے اسے بنایا گیا ہے، نیورالنک اپنے کام کے بارے میں کافی حد تک خفیہ رہی ہے، لیکن اس نے انکشاف کیا ہے کہ نیورون کی سرگرمی کو دیکھنے کے لیے دماغ میں چھوٹی چپ داخل کیے جانے کی ضرورت ہے، جو خاص طور پر ڈیزائن کردہ روبوٹ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
اس نے کامیاب تجربات بھی کیے ہیں، جن میں ایک بندر اس سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر پر پونگ گیم کھیل رہا ہے، تاہم ٹیسٹنگ کے لیے جانوروں کے استعمال پر اسے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent