سی ڈی اے کی چڑیا گھر کی دوبارہ تحویل پر وائلڈ لائف بورڈ کا قانونی نکات پر غور

اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کی چیئرپرسن رائنہ سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سی ڈی اے کا یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے اور وائلڈ لائف بورڈ قانونی آپشنز پر غور کر رہا ہے۔‘

6 جنوری 2021 کو لی جانے والی اس تصویر میں اسلاآباد کا بند چڑیا گھر دیکھا جا سکتا ہے جسے مرغزار بھی کہا جاتا ہے (اے ایف پی)

اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے بورڈ نے گذشتہ برس 29 جنوری کو اسلام آباد چڑیا گھر کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے وفاقی کابینہ سے اجازت لینے کی منظوری دی جس پر وائلڈ لائف بورڈ نے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔

اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کی چیئرپرسن رائنہ سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سی ڈی اے کا یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے اور وائلڈ لائف بورڈ قانونی آپشنز پر غور کر رہا ہے۔‘

رائنہ سعید نے کہا کہ ’وفاقی کابینہ تک معاملہ کے جانے کا تو شائد سی ڈی اے کے پاس وقت نہ ہو اور معاملہ اب نئی منتخب حکومت کی کابینہ کے پاس جائے۔‘

سی ڈی اے بورڈ کے فیصلے کے بعد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے جاری بیان میں کہا کہ ’29 جنوری 2024 کو، وائلڈ لائف بورڈ سے مشاورت یا مطلع کیے بغیر، سی ڈی اے بورڈ نے اپنی میٹنگ کے دوران اسلام آباد چڑیا گھر کا دوبارہ دعوی کرنے اور اسے بین الاقوامی معیار کے چڑیا گھر کے طور پر دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

’سی ڈی اے بورڈ کو غلط اطلاع دی گئی کہ آئی ڈبلیو ایم بی اس سہولت کا استعمال کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سی ڈی اے بورڈ نے اب اس تجویز کی منظوری دے دی ہے اور متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ اب بند چڑیا گھر کا انتظامی کنٹرول واپس لینے کی درخواست کے ساتھ وفاقی حکومت سے رجوع کریں۔‘

اس حوالے سے اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے بیان میں مزید کہا کہ ’اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس 1979 کے سیکشن چار کے تحت 2015 میں قائم کیا گیا تھا اور وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کو رپورٹ کرتا ہے۔

’اسلام آباد چڑیا گھر کو جولائی 2020 میں وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے بعد کاون ہاتھی سمیت متعدد جانوروں کی ہلاکت اور ان کے ساتھ بدسلوکی کے بعد وائلڈ لائف بورڈ کے حوالے کیا تھا اور اس وقت اسلام آباد چڑیا گھر کو بند کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سی ڈی اے نے چیلنج نہیں کیا۔

’بعد ازاں وائلڈ لائف بورڈ نے اس جگہ کو پاکستان میں اپنی نوعیت کے واحد وائلڈ لائف ریسکیو سینٹر میں تبدیل کر دیا، جس سے مصیبت میں گھرے جنگلی جانور  کی تمام اقسام کو مدد فراہم کی گئی۔‘

بیان میں مزید کہا کہ ’2021 سے باقاعدہ آغاز کے بعد سے، مرکز نے کامیابی سے تقریباً 381 جانوروں کو بچایا اور ان کی بحالی کی ہے۔ وائلڈ لائف بورڈ نے جوائن ہینڈز (بین الاقوامی این جی او) کے بین الاقوامی ماہرین کی مشاورت سے، مارگلہ وائلڈ لائف سینٹر کے حصے کے طور پر عوام کے لیے ڈیجیٹل ڈسپلے کے ساتھ وزیٹر انفارمیشن سینٹر کھولنے کے لیے تفصیلی منصوبوں کی بھی منظوری دی ہے۔‘

اسلام آباد چڑیا گھر کیوں بند کیا گیا تھا؟

اسلام آباد کا چڑیا گھر 1978 میں 10 ہیکٹر رقبے پر قائم کیا گیا تھا اور وہاں نایاب جانور رکھے گئے تھے اور بیرون ملک سے بھی جانور منگوائے گئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد کے چڑیا گھر میں 35 برس کا طویل عرصہ گزارنے والے کاون کی گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے معاملہ نظر میں آیا اور چڑیا گھر کا ناقص انتظام سامنے آیا، کاوان کو زنجیروں میں جکڑا دیکھ کر سوشل میڈیا نے مہم زور پکڑا  تو کینیڈا اور آسٹریا میں جانورںوں کے تخفظ کی دو بین الاقوامی تنظیموں نے اس سلسلے حکومت پاکستان سے رابطہ کیا۔ وکیل کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ درخواست دائر کی گئی۔

اسلام آباد کے چڑیا گھر میں ہاتھی کاون کی حالت زار سے متعلق کیس میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ جانوروں کو مخفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔

عدالتی حکم کی تعمیل کے دوران مرغزار چڑیا گھر میں جب جانوروں کو منتقل کیا جا رہا تھا تو عملے کی غفلت سے شیر اور شیرنی ہلاک ہو گئے تھے۔

اس سے متعلق وڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جس میں چڑیا گھر کا عملہ شیر شیرنی کے پنجرے کو آگ لگا کر تشدد کر رہے تھے۔

جانوروں کی ہلاکت پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور وائلڈ لائف بورڈ اور وزارت موسمیاتی تبدیلی سے جواب طلب کیا تھا۔

اسلام آباد کے مرغزار چڑیا گھر کے تمام جانوروں کو بد انتظامی کی وجہ عدالت کے حکم پر ایوب نیشنل پارک  اور جبکہ کاوان ہاتھی کو کمبوڈیا، ہمالیہ کے بھورے ریچھوں کے جوڑے کو اردن منتقل کیا گیا جس کے بعد چڑیا گھر کو 17 دسمبر 2020 میں بند کر دیا گیا تھا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات