اور پھر ہوا بھی وہی جس کا ڈر تھا۔ میں نے دیکھا کہ سامنے سے اطہر علی (سربراہ بی بی سی اردو سروس) اور ان کے ہم مشرب اشوک رام پال (بی بی سی ہندی سروس اور ایشین نیٹ ورک) بانہوں میں اپنے اوور کوٹ لٹکائے بی بی سی بش ہاؤس کلب میں داخل ہونے کے لیے خراماں خراماں چلے آ رہے تھے۔
لیکن اندھیرا میری آنکھوں میں فوراً ہی آیا کہ اب میں نہیں بچوں گا اور مائیکل (مائک) وہ کر رہے گا کہ جس کا میں نے دو ہفتوں تک ہر ایک لفظ کے درست تلفظ کے ساتھ سبق اسے یاد کرایا تھا۔
اور خدا کی مار کہ پھر ہوا بھی یہی۔
مائک نے اپنی مردانہ سی غنائیہ آواز میں چہرے پر پولائٹ مسکان سجائے ابتدا کی: ’ابے او ۔ ۔ ح زادے، تیرا کلب کارڈ کدھر ہے۔ ۔ ماد ۔ ۔ چ، پہلے وہ دکھا؟‘
کہنا وہ یہ چاہ رہا تھا کہ
’Gentlemen may I see your BBC Club Cards, please‘
اتنا سننا تھا کہ دونوں چھ فٹے لحیم شحیم جُسّے داروں کے چہرے لال ہو گئے۔ ایک سے رہا نہ گیا، وہ حیرت زدہ ہو کر بولا:
‘Pardon me?’
بی بی سی کلب کے دوسرے دروازے کے پیچھے چھپا میں اوپر کی طرف دیکھ کر گڑ گڑایا کہ مائک آگے کچھ نہ کہے لیکن وہ بھی ایک نمبر کا سعادت مند تھا۔ چہرے پر قدرے سنجیدگی لاتے ایک بار پھر فر فر بولا:
’تیری تو م ۔ ـ کا، مجھے اپنا کارڈ دکھا، ورنہ جا اپنی ۔۔ میں۔‘ یہاں اصل میں دو بہت ہی موٹی موٹی مادر زاد گالیاں اور بھی آئی تھیں۔
’ح زادہ‘ اور ’ک ۔ ۔ جر۔ ۔ کہیں کا‘ جیسے فقروں کے ساتھ مائک یہاں بھی پورا کا پورا پاٹھ ڈاؤن لوڈ کرنے کے موڈ میں تھا اور بولتا ہی جا رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں پلک جھپکتے میں نے دیکھا کہ قد آوروں میں سے ایک، مائک پر ہاتھ جڑنے کو ہے، جسے مائک بھی تاڑ گیا کہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہو چکی ہے ورنہ اسے آنے والے ویل ڈریس بظاہر ایسے ’جنٹل مین‘ سے ایسے لال پیلے ردعمل کی توقع ہر گز نہ تھی۔ بالآخر ذرا پیچھے ہٹ کر وہ اپنی مادری زبان میں کودا اور پھرتی کے ساتھ مودبانہ انگریزی میں مافی الضمیر سمجھاتے ہوئے کہنے لگا کہ ’میں تو محض آپ کو آپ ہی کی زبان میں ویلکم کرنے کے لیے متاثر کرنے والے چند جملے ’آرڈو‘ میں کہہ رہا تھا جو مجھے ’شافی جے می‘ نے (اطہر اور اشوک صاحب کو سکاٹش ایکسنٹ میں یہ نام پلّے نہ پڑا) محنت سے سکھائے ہیں لیکن شاید میں صحیح طور پر ادا نہ کر سکا۔ آئندہ مشق کرکے بہتر طور پر ویلکم کروں گا۔‘
لیکن اتنا سننے کے بعد ’شافی جے می‘ اپنی چوکڑی بھول کر ہرن کی مانند دوسرے دروازے سے یہ جا وہ جا۔ مائک کی کمر میری طرف تھی اور وہ بڑی لجاجت سے دونوں قد آوروں کو ’بار کاونّٹر‘ کی طرف جاتا دیکھ رہا تھا کہ شاید یہ مڑ کر دیکھیں تو وہ انہیں ’کھڑا انگوٹھا دکھاتے، تھینک یو‘ ضرور کہے گا۔ بات آئی گئی ہو گئی کیوں کہ اگلے دو ہفتوں تک میں نے بی بی سی کلب کا رخ نہ کرنے میں عافیت جانی۔ لیکن مجھے ادھر ادھر سے اطلاعات مل رہی تھیں کہ مائک مجھے ڈھونڈتا پھر رہا ہے اور دو تین بار اپنے لنچ بریک میں ففتھ فلور پر واقع اردو سروس میں آ کر تاکا جھانکی کرتے ہے۔ پوچھ بھی چکا ہے کہ ’شافی جے می‘ کدھر ہے؟
تجسس تو مجھے بھی تھا کہ مائک میرے فلور پر کیوں آتا ہے لیکن یہ تجسس وحشت میں اس وقت بدلا جب ایک قریبی ساتھی نے بتا دیا کہ ’مائک کئی تہوں میں لپٹا ہوا مُڑا تُڑا ایک پرچہ لیے پھرتا ہے اور ہر ایک سے پوچھتا ہے کہ اردو اور رومن انگریزی میں جو کچھ لکھا ہے وہ کیا ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ کیا ہے؟ اور میں اسے بتا چکا ہوں کہ اردو میں ویلکم سکھانے کے بجائے کوئی تمھیں کچھ اور ہی سکھا گیا ہے۔
قصّہ مختصر، مائک نے بہت برا مانا تھا لیکن میں نے شرارت کا اعتراف کرتے، بہادری کے ساتھ ہتھیار ڈالنے اور معذرتیں کرنے میں دیر نہ لگائی تھی۔ اس نے مجھ سے بولنا تک بند کر دیا لیکن میں نے بھی ہمت نہ ہاری۔ کئی بار اسے اس کی پسندیدہ ڈرنک بھی لا کر دی جسے لینے سے اس نے ہلکی پھلکی گالیاں دیتے ہوئے متعدد بار انکار کیا لیکن تھا تو آخر کار سیدھا سادھا انگریز نا، تو ایک دن دل اس کا بھی پسیج گیا۔ مان گیا۔ ہم پھر ایک بار دوست بھی بن گئے اور آخر کار وہ خود بھی مزے لے لے کر یہ واقعہ سنانے لگا تھا۔
ویسے تو اپنی یاد داشتوں کے شرارتی واقعات میں اطہر صاحب میں اور اردو سروس کے بارے میں تفصیلی ذکر ہے لیکن یہاں اس واقعے کے یادگار اعتراف اور اطہر صاحب کے لاڈ اور بڑے پن کا ذکر ضروری ہے۔
اطہر صاحب بی بی سی سے ریٹائر ہونے والے تھے۔ ایک دن تخلیے میں موقع پا کر میں ان کے کمرے میں داخل ہو گیا اور بڑی لجاجت سے کہا: ’سر، دل پر بوجھ ہے۔ ایک شرارت کا اعتراف کرنا ہے۔‘ وہ حیرت میں تھے کہ اب یہ کیا حرکت کر کے آیا ہے۔ میں نے دیر نہ لگائی، بی بی سی کلب اور مائک کے ویلکم کے ساتھ پیش آئے واقعے کی پوری تفضیل یاد دلاتے ہوئے بڑی معذرت چاہی۔ درگذر کرتے ہوئے بولے:
’اچھا تو اس کو بیہودہ زبان سکھانے والے بدمعاش تم تھے؟‘
’آپ بڑے ہیں سر‘، میں نے کہا۔
’کیا مطلب؟‘ وہ بولے۔
’میرا مطلب ہے آپ میرے بڑے ہیں سر جو چاہیں کہہ سکتے ہیں۔‘
درگذر کرتے ہوئے مجھے اطہر صاحب نے جانے تو دیا، لیکن پیار کے ساتھ شاید سوچا یہی ہو گا کہ ’بدمعاش، پھر شرارت کر گیا!‘