’تمام پروگرام میزبان اور آر جیز متوجہ ہوں۔ کالرز سے بات کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں۔ خواتین کالرز کو صرف خور (بہن) کہہ کر مخاطب کریں۔۔۔۔‘
یہ ہدایات باجوڑ ضلع کے صدر مقام خار کی سول کالونی میں قائم سابق قبائلی علاقوں کے واحد نجی ریڈیو سٹیشن شمال 98.6 ایف ایم کی ایک دیوار پر آویزاں دکھائی دیں۔ سرخ مارکر سے لکھی پہلی ہدایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو یہاں اس سٹیشن پر کتنا سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔
اس پر کوئی تحقیق تو نہیں ہوئی اور نہ اعداوشمار دستیاب ہیں، لیکن دیکھا گیا ہے کہ گھر پر بیٹھی خواتین ریڈیو زیادہ سنتی اور ان پروگراموں میں ٹیلیفون کے ذریعے شرکت بھی کرتی ہیں۔ باجوڑ میں شاید ایسی خواتین کی تعداد کم نہیں۔
شمال ریڈیو کے پروگرام مینیجر زاہد خان نے خواتین سامعین کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ریڈیو چینل نے اپنے 40 فیصد پروگرام خواتین کے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔
انہوں نے کہا ان پروگراموں میں صحت، تعلیم اور دیگر شعبہ جات کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ ’خواتین صبح 10 سے لے کر دوپہر 12 بجے تک سب سے زیادہ فیڈ بیک دیتی اور پروگراموں میں شریک ہوتی ہیں۔‘
باجوڑ جیسے قدامت پسند معاشرے میں یہ واحد خدمت نہیں ہے جو شمال 98.6 ایف ایم 2014 کے وسط سے اپنے طور پر ادا کر رہا ہے۔ درمیان میں طویل عرصوں کے لیے بند بھی ہوا لیکن اس کے روح و رواں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی سید اخونزادہ چٹان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مشکلات کے باوجود اسے ایک مشن کے طور پر جاری رکھا ہوا ہے۔
سرکاری سختیوں اور پابندیوں کی وجہ سے ان قبائلی علاقوں میں آزاد میڈیا تو کبھی جڑیں نہیں پکڑ سکا لیکن ’ریڈیو ملا‘ اور منگل باغ جیسے شدت پسندوں نے خوب وقتی فائدہ اٹھایا۔
اب جب کہ باجوڑ خیبر پختونخوا کے بندوبستی علاقے کا ضلع بن چکا ہے، امید کی جا رہی ہے کہ مقامی میڈیا بھی فعال ہو جائے گا۔ کئی صحافی اپنے طور پر فیس بک پیج اور یوٹیوب چینل تو چلا رہے ہیں لیکن باضابطہ چینل یا سٹیشن شمال یا حکومتی/عسکری ریڈیو سٹیشن ہی ہیں۔
ہم نے اخوندزادہ چٹان سے پوچھا کہ انہیں اسے جاری رکھنے میں کیا دقتیں پیش آئیں؟
ان کا کہنا تھا کہ معاشی مشکلات تو اس پسماندہ علاقے میں ہیں ہی، لیکن ’اسے ایک ایسے علاقے میں چلانا جہاں کوئی آزاد صحافی اس سے قبل اپنی مرضی سے نہیں جاسکتا تھا مشکلات کی نوعیت آپ پر آشکار کر دیتا ہے۔‘
مزید پڑھیے:
علاقہ غیر سے علاقہ خیر تک: باجوڑ کے سٹڈی سرکل
علاقہ غیر سے علاقہ خیر تک: تین سالہ بچے بھی’سرکاری ملازم‘
علاقہ غیر سے علاقہ خیر تک: لڑائی بہت ہو چکی اب ترقی کی بات کریں
’ایف ایم سٹیشن میں بھی ضرور مشکلات تھیں لیکن ہم اس چیز کو اپنی قوم کے لیے انتہائی ضروری سمجھتے ہیں۔ یہاں لڑکیوں کی شرحِ خواندگی صرف تین فیصد جب کہ لڑکوں کی تعلیم 13 فیصد ہے۔ لوگوں کی آگاہی کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نہیں کہ کم از کم ان میں سماجی اور تعلیمی شعور آ جائے۔ لوگوں کو اتنا پتہ چلے کہ وہ اس ریاست کے فرد ہیں۔ ریاست کے مجھ پر اور میرے ریاست پر کیا حقوق ہیں۔ آیا ریاست نے مجھے میرے حقوق دیے ہیں اور کیا میں نے ریاست کے حقوق ادا کیے ہیں۔ اس آگاہی کی خاطر ہم نے ہر طرح کی مشکل اور مصیبتیں برداشت کی ہیں۔‘
تین کمروں کے اس بظاہر سرکاری مکان میں ایک چھوٹا سا سٹوڈیو، ایک دفتر اور ایک قیام و طعام کی جگہ ہی اس سٹیشن کا تمام حدودِ اربعہ ہے۔ دو چند گھنٹوں کے وقفے کے علاوہ اس کی نشریات تمام دن جاری رہتی ہیں۔
زاہد اتمانی، ساحل تنہا جیسے تجربہ کار اور وحید خان جیسے نوجوانوں کا ایک آمیزہ ہے جو مختلف نوعیت کے پروگراموں کی میزبانی کرتے ہیں۔ سٹوڈنٹ کارنر اور چینی زبان سیکھانے کا بھی بندوبست ہے یہاں۔ یہ الگ بات کہ فی الحال شاید یہاں کسی خاتون میزبان کی گنجائش نہیں۔
سٹوڈیو دیکھنے پہنچے تو اکرم خان جنہیں اکرم لالا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، ’رنگونہ‘ پروگرام پیش کرنے میں مصروف تھے۔ ان سے پوچھا کہ آپ تو یہاں کے سیلبرٹی ہوں گے؟ تو ان کا سادگی بھرا جواب تھا کہ ’بس لوگوں کا پیار ہے۔‘
ہم نے دریافت کیا کہ آپ کے پروگرام کون کون سنتا ہے، تو اکرم لالا نے کہا ’نوجوان اور ہماری بہنیں بہت شوق سے سنتی ہیں۔ اس کےعلاوہ بیرون ملک سے بھی سننے والے خصوصاً خلیجی ممالک میں کام کرنے والے باجوڑی بھی کالیں کرتے رہتے ہیں۔‘
ان سے پوچھا کہ باجوڑ جیسے علاقے میں خواتین کتنا ریڈیو پروگراموں میں شرکت کرتی ہیں تو اکرم لالا نے بتایا کہ بہت باقاعدگی سے۔ ’ہم بھی انہیں بہنوں کے نام سے پکارتے ہیں۔ وہ بھی ہمیں بھائی سمجھتی ہیں۔ یہاں بورڈ پر بھی لکھا گیا ہے کہ آپ انہیں ’خور (بہن)‘ کے نام سے پکاریں۔‘
ہمارے سامنے ایک پروگرام کے دوران کئی خواتین نے کالز کیں۔
میں نے اخوندزادہ چٹان سے پوچھا کہ آپ نے باجوڑ جیسے علاقے میں ریڈیو کے چلتے رہنے کے لیے بنیادی اصول کیا رکھے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سختی سے یہ معیار بنایا ہے کہ ہمارے مذہب اور روایات سے باہر کوئی بات نہیں ہو گی تاکہ لوگ اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر آزادانہ طور پر اسے سن سکیں۔‘
باجوڑ میں تو یہ ریڈیو 99 فیصد علاقے کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمسایہ افغان صوبے کنڑ، پاکستان کے مہمند، سوات اور موٹر وے پر ٹیکسلا کے قریب براہمہ جھنگ باہتر تک اس کی نشریات سنی جا سکتی ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل پر بھی اسے سنا جاسکتا ہے۔
ہمیں بھی ایک کالر ان پروگرام میں بیٹھنے کا موقع دیا گیا۔ تقریباً ایک گھنٹنے میں نہ جانے باجوڑ کے کن کن علاقوں سے ٹیلیفون آئے۔ ان میں خواتین کی بھی چند کالیں تھیں۔ ہر کوئی یہی سوال کر رہا ہے کہ انضمام تو ہو گیا اب ان کی زندگیاں کب اور کیسے بدلیں گی؟ صبر کی تلقین کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ ہمارے پاس بھی نہیں تھا۔
قبائلیوں کو ایک شکایت پاکستان کے کئی دیگر علاقوں کی طرح یہ ہے کہ قومی میڈیا ریٹنگ کی دوڑ میں ان کی بات ہی نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بین القوامی نشریات ہی لوگوں کی حالات سے باخبر رہنے کا بڑا وسیلہ تھے۔
اب جب یہ بندوبستی علاقے بن چکے ہیں تو یہاں مقامی میڈیا کو مضبوط کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ مناسب وسائل اور تربیت کے ساتھ ریڈیو شمال مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے، صبح صبح چلنے والی اس شمالی ہوا کی طرح جو نئے دن میں نئی روح پھونک دیتی ہے۔
یہ مضمون انڈپینڈنٹ اردو کی پاکستان کی مغربی سرحد پر واقع سابق قبائلی علاقوں کے گذشتہ برس صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام پر ہفتہ وار سیریز ’علاقہ غیر سے علاقہ خیر تک‘ کی سیریز کا حصہ ہے، جس میں اس موضوع پر بات ہو گی کہ وہاں کے حالات میں کیسے بہتری لائی جا سکتی ہے۔