تقسیم سے قبل برصغیر میں ہندو اور مسلمانوں کی مشترکہ آباد کاری کی وجہ سے کئی رسوم رواج بھی مشترکہ تھے جن میں سے ہندوؤں کی شادیوں اور رات کی تقریبات میں یا کسی بھی اجتماعی دعوت و خوشی میں چراغاں کرنے کی رسم بھی رائج تھی۔
پرانے لوگوں کی سینہ بہ سینہ مستند روایات کے مطابق صوبہ پنجاب سمیت میانوالی میں تقسیم سے قبل پرانے دور میں بجلی اور رنگین برقی قمقمے یا روشنیاں نہ ہونے کی وجہ سے رات کی تقریبات کو رنگین بنانے کے لیے عموماً مٹی سے بنی روشن دانوں والی چھوٹی بڑی ڈولیوں کا استعمال کیا جاتا تھا اور ان میں سرسوں کے تیل کے چراغ بھی جلائے جاتے تھے۔
ان روشن دانوں پر پنے یعنی رنگین پتلے کاغذ بھی چپکا کر دیگر سجاوٹ کی جاتی تھی جن کو ’مُسارے‘ کہتے تھے اور ان مساروں کے ساتھ رسی یا دھاگا باندھ کر اور ان میں جلتا دیا رکھ کر اجتماعی طور پر بچے بڑے ہاتھوں میں تھامے خوشی کے گیت یا بھجن گاتے تھے۔
رات کے اندھیرے میں مساروں سے نکلنے والی رنگین روشنیاں سریلے سنگیت کے ساتھ دلکش نظارہ پیش کرتی تھیں۔
تقسیم کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ’مساروں‘ کا رواج بدلتے خدوخال کے ساتھ کسی نہ کسی صورت جاری رہا۔
اب تقسیم سے پہلے والی طرز، یعنی ماہ رمضان سے ایک ماہ قبل شعبان کے وسط میں ’مساروں کی عید‘ صرف صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی کے گنے چنے دیہاتوں میں منائی جاتی ہے۔
مساروں والی عید کی رات گلی محلے کے چھوٹے بچے رواج کے طور پر یہ رنگین سجے ہوۓ روشن مسارے ہاتھوں میں پکڑ کر گھومتے ہیں اور ساتھ اونچی آواز میں ہم آواز گاتے بھی ہیں؛
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈھنگ ڈھنگ مسارے
اللہ میاں دے تارے
ڈھنگ ڈھنگ مسارے
مسجد کے دو مینارے
ڈھنگ ڈھنگ مسارے
مٹی کے ان مساروں کو بنانے والے عیسیٰ خیل کے کمہار عبدالقیوم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پہلے یہ ہر سیزن میں ہمارے باپ دادا تیار کرتے رہے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے پنجاب میں اب مسارے دیکھنے سننے میں نہیں آتے۔
میانوالی میں انہیں بنانے والے اکا دکا کمہار ہی رہ گئے ہیں کیونکہ جدت آنے سے مساروں کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔