سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل تنصیبات پر ڈرون حملوں کے بعد امریکہ نے کہا ہے کہ وہ حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے تیار ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ وہ حملوں پر سعودی ردعمل کے منتظر ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ سعودی عرب ان حملوں کا ذمہ دار کسے ٹھہراتا ہے۔
سعودی عرب کے مشرق میں واقع ریاستی کمپنی آرامکو کی دو اہم تنصیبات البقیق اور خریص پر رات گئے ڈرون حملوں کے بعد گہرے سیاہ دھوئیں کے بادل دکھائی دیے۔
حکام تیل کی تنصیبات پر لگی آگ کو تو بجھانے میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن ان حملوں سے آرامکو کو شدید مالی نقصان کا سامنا ہے۔
سعودی عرب کی پیدوار کی صلاحیت آدھی ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے سوموار کو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 10 فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
یمن میں سعودی اتحاد کے خلاف لڑنے والے حوثی باغیوں نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، لیکن امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ان حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کر رہے ہیں۔
تاہم ایران نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ اسی طرح ایران اور امریکہ کے اتحادی عراق نے بھی حملوں سے کسی تعلق کا انکار کیا ہے۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ وہ اس ’جارحانہ دہشت گردی‘ کا جواب دینے کی ‘صلاحیت اور ارادہ‘ رکھتے ہیں۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ یمن سعودی عرب کے جنوب میں واقع ہے لیکن ڈرونز کے ذریعے حملے سعودی عرب کے اندر ایک ہزار کلومیٹر دور خلیج عرب کے قریب ہوئے۔