’آہنی پھیپھڑوں‘ والے پال الیگزینڈر چل بسے

امریکی شہری پال الیگزینڈر کی عمر چھ سال تھی، جب 1952 میں پولیو کے باعث انہیں فالج ہوا اور ان کی گردن سے نیچے جسم نے کام چھوڑ دیا تھا، جس کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں لوہے کے سلینڈر میں منتقل کردیا۔

بچپن میں پولیو کا شکار ہونے والے امریکی شہری پال الیگزینڈر، جنہوں نے اپنی زندگی ’آئرن لنگ‘ (آہنی پھیپھڑوں) کے ساتھ گزاری، 78 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس سے تعلق رکھنے والے پال الیگزینڈر کی عمر چھ سال تھی، جب 1952 میں پولیو کے باعث انہیں فالج ہوا اور ان کی گردن سے نیچے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

اس بیماری کی وجہ سے اس کے لیے سانس لینا ممکن نہیں تھا، جس کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں لوہے کے سلینڈر میں ڈال دیا، جہاں انہوں نے اپنی تقریباً پوری زندگی گزار دی۔

پال نے اسی حالت میں قانون کی تعلیم حاصل کی، عملی طور پر قانون کے شعبے میں کام کیا اور اپنی یادداشتیں لکھیں۔ ان کی موت پیر (11 مارچ) کو ہوئی۔

چندہ اکٹھا کرنے والی ویب سائٹ پر ان کی موت کے حوالے سے لکھا گیا: ’پال الیگزینڈر، جو آہنی پھیپھڑوں والے شخص کے نام سے جانے جاتے تھے، کل انتقال کرگئے۔ پال کالج گئے، وکیل بنے اور ایک کتاب شائع کی۔ پال ایک افسانوی، مثالی شخصیت تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بھائی فلپ الیگزینڈر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہیں ایک ایسا شخص قرار دیا، جس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔

انہوں نے کہا: ’وہ میرے لیے ایک عام بھائی کی طرح تھا، بھائیوں کی طرح، ہم آپس میں لڑتے، کھیلتے، ایک دوسرے سے پیار کرتے اور پارٹیوں اور کنسرٹس میں ساتھ جاتے تھے۔‘

فلپ کے مطابق ان کے بھائی ایک عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ساری زندگی ایک سنگین بیماری سے لڑتے رہے، ایک ایسی سنگین بیماری کہ وہ اپنا کھانا بھی نہیں کھا سکتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں پال کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی اور دونوں بھائیوں نے پال کی زندگی کے آخری ایام ایک ساتھ گزارے۔

بقول فلپ: ’یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں آخری دنوں میں ان کے ساتھ تھا۔‘

’آئرن لنگ‘

1952 میں جب پال بیمار ہوئے تو ان کے  آبائی شہر ڈیلاس میں ڈاکٹروں نے ان کا علاج کیا لیکن وہ خود سانس نہیں لے سکتے تھے۔

انہوں نے اس مسئلے کا حل ان کے جسم کو لوہے کے سلینڈر میں رکھ کر تلاش کیا، جسے وہ ’آہنی پھیپھڑا‘ کہتے تھے اور پال کو گردن تک اس میں چھپا دیا گیا تھا۔

اسی سلینڈر پر ان کے پھیپھڑے پھول جاتے اور وہ سانس لیتے اور اسی طرح سانس چھوڑنے کے لیے وہ اسے مخالف سمت میں کھینچتے تھے۔

برسوں بعد پال الیگزینڈر سلینڈر کی مدد کے بغیر خود ہی سانس لینے کے قابل ہوگئے اور تھوڑی دیر کے لیے وہ بغیر سلینڈر کے سانس لینے لگے۔

اس طرح کے دیگر مریضوں کی طرح ڈاکٹروں نے پال کے بارے میں نہیں سوچا تھا کہ وہ زیادہ دیر تک زندہ رہیں گے لیکن وہ نہ صرف کئی دہائیوں تک زندہ رہے بلکہ 1950 کی دہائی میں انہوں نے پولیو ویکسین کی ایجاد بھی دیکھی۔

پال نے ہائی سکول کے بعد سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے 1984 میں یونیورسٹی آف ٹیکساس سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور کئی دہائیوں تک بطور اٹارنی پریکٹس کی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی