مودی کا پیغام کشمیر کے نام

مودی کشمیر کے دورے سے ووٹروں اور عالمی برادری کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ انہوں نے وعدے کے مطابق خطے کو بندوق برداروں اور آزادی پسندوں سے پاک کر دیا ہے، لیکن کیا وہ اس میں کامیاب رہے؟

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سات مارچ، 2024 کو سری نگر کے بخشی سٹیڈیم میں خطاب کر رہے ہیں (اے پی)

انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی کے سری نگر کے حالیہ جلسے میں موجود ہزاروں کشمیریوں میں نوجوان صدام لون شامل تھے، جو کپواڑہ کی لائن آف کنٹرول سے چار گھنٹے کا سفر طے کرکے بخشی سٹیڈیم پہنچے تھے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

ایک تو مودی کو قریب سے دیکھنے کا شوق تھا دوسرا وہ اس تاریخی فیصلے کے ضامن رہنا چاہتے تھے، جس کے بارے میں جموں و کشمیر کی تقریباً ڈیڑھ کروڑ آبادی کو انتظار اور توقع تھی کہ مودی وعدے کے مطابق اس کا اعلان کریں گے۔

صدام نے وزیراعظم کی تقریر پوری نہیں سنی اور افسردگی کے عالم میں کہنے لگے: ’نہ تو ریاست کا درجہ ملا اور نہ کسی اقتصادی پیکج کے بارے میں اعلان ہوا۔ چند روایتی جملوں کو قریب سے سننے کا موقع ملا جو ایک عذاب سے کم نہیں تھا، میں ان کی تقریر ختم ہونے سے پہلے ہی بخشی سٹیڈیم سے نکل گیا اور میرے ساتھ وہ ہزاروں ملازمین بھی نکلے جن کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔‘

چار سال قبل اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کے بعد یہ مودی کا پہلا دورہ کشمیر تھا اور پارلیمانی انتخابی مہم کے لیے بڑی اہمیت کا حامل بھی ہے۔

کشمیر کے اس دورے کے پیچھے کئی مقاصد تھے۔

ایک ارب آبادی کو یہ باور کروانا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری ختم کر کے نہ صرف اسے انڈیا کے ساتھ مکمل طور پر ضم کر دیا ہے بلکہ آزادی کہنے والی گمراہ کشمیری قوم کو انڈین بنا دیا گیا ہے جو بظاہر یہ عندیہ بھی دیتا ہے کہ خود مرکزی حکومت میں الحاقِ ہندوستان کے معاہدے پر شکوک پائے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بی جے پی نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد جس طرح کا بیانیہ بنایا ہے اس سے جموں و کشمیر سے غیر آشنا انڈین آبادی کے ذہنوں پر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے آئین کی شق ہٹا کر اس علاقے کو دشمن ملک سے چھڑا کر دوبارہ حاصل کر لیا گیا ہے۔ انتخابی مہم میں یہ بیانیہ زور پکڑ رہا ہے۔

بدقسمتی سے اپوزیشن جماعتوں یا مقامی جماعتوں نے ایک ارب آبادی کو یہ بتانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی کہ آرٹیکل 370 انڈین آئین کا حصہ تھا اور یہ چین یا پاکستان نے کشمیری عوام کو نہیں بلکہ خود انڈیا نے دیا تھا جب مہاراجہ کشمیر نے الحاقِ ہندوستان کی ہامی بھرنے کے بعد جموں و کشمیر کو آئین کے تحت خصوصی حثیت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

مودی کشمیر کے دورے سے اپنے ووٹروں اور عالمی برادری کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ انہوں نے وعدے کے مطابق خطے کو بندوق اور بندوق برداروں اور آزادی پسندوں سے پاک کر دیا ہے۔ خطے میں امن و عامہ کی صورت حال اتنی بہتر ہو گئی ہے کہ وہ بخشی سٹیڈیم میں جا کر ہجوم سے خطاب کر رہے ہیں جہاں چند برس پہلے تک یوم آزادی کی تقریبات پر سکیورٹی کے ہوتے ہوئے بھی بم پھٹتے تھے یا فائرنگ کے واقعات رونما ہوتے تھے۔

سکیورٹی الرٹ آج بھی قائم ہے بلکہ وزیراعظم کی سکیورٹی کے کارن بخشی سٹیڈیم کے اردگرد ایک بڑے علاقے کو ریڈزون قرار دیا گیا تھا۔ دکانداروں کو کاروبار جاری رکھنے کی ہدایت تھی، البتہ بقول مقامی سیاسی جماعتوں کے، سات ہزار کے قریب ملازمین رات کے اندھیرے میں سٹیڈیم لائے گئے تھے جن میں سے بیشتر نے الزام عائد کیا کہ وعدے کے برعکس کھانے کا انتظام ناقص تھا۔

مودی نے جموں و کشمیر کے کسی مقامی سیاسی رہنما یا جماعت کو اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی تھی جبکہ ایک سیاست دان مظفر بیگ اپنی اہلیہ کے ہمراہ شرکت کے لیے خود ہی پہنچے تھے مگر رپورٹوں کے مطابق مودی کی لفٹ نہ ملنے کی وجہ سے سٹیڈیم چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

مقامی جماعتوں کو پیغام دینا تھا کہ ان کی اہمیت اور اعتباریت ختم ہو چکی ہے اور جو مودی 92 میں مسلح تحریک کے عروج پر لال چوک میں ترنگا نہیں لہرا سکے تھے وہ آج مین سٹریم کی غیر موجودگی میں ترنگا لہرا سکتے ہیں، جن میں سے بعض جماعتوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد شاید اب کوئی انڈین ترنگا ہاتھ میں نہیں اٹھائے گا۔ پھر بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے تھے۔

مودی کو ایک بات کی داد دینی ہو گی کہ انہوں نے اندرون ملک مسئلہ جموں و کشمیر کی نوعیت تبدیل کر دی ہے۔

انہوں نے اس کا بیانیہ سیاسی کے بجائے امن اور ترقی بنا دیا ہے اور وہ یہی منترا لے کر کشمیر سے کنیا کماری تک عوام کو بہلاتے جا رہے ہیں۔

حالیہ دورے میں بھی انہوں نے کشمیر کو سیاحت اور زراعت کا مرکز بنانے پر زور دیا، جس کے لیے ایک بھاری رقم بھی مخصوص کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کشمیر کو عالمی سطح پر شادی بیاہ کی تقریبات منانے کا بڑا مرکز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے اس خطے کی خوبصورتی کا فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔

نیشنل کانفرنس کے کارکن غلام نبی کہتے ہیں کہ مودی کی زبان سے رشتہ ازدواج یا خوبصورتی کے الفاظ سننا کوئی معنی نہیں رکھتے کیونکہ دونوں میں ان کا ریکارڈ صفر کے برابر ہے۔

ایک مقامی ایڈیٹر (سکیورٹی کے باعث نام خفیہ رکھا گیا ہے) کہتے ہیں کہ سختیوں اور بندشوں سے مودی حکومت نے نہ صرف کشمیریوں کو خاموش کر دیا ہے بلکہ سرحد پار کشمیر کو شہ رگ قرار دینے والوں پر بھی ایسی دہشت بٹھا دی ہے کہ وہ اب کشمیر کا نام لینے سے بھی کتراتے ہیں، پھر خوف میں طاری بعض آزادی پسند خود کو انڈین جتانے کی دوڑ میں مین سٹریم کو بھی پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔

ایڈیٹر کہتے ہیں کہ یہ صیح ہے کہ چار سال میں ماضی کے مقابلے میں کوئی اتنا خون خرابہ نہیں ہوا یا عوامی مزاحمت کو مکمل طور پر دبایا گیا ہے مگر موجودہ حالات میں اس کا ادراک کرنا مشکل ہے کہ بندشوں اور پابندیوں کے ختم ہونے کے بعد کیا عوام آزادی کے اپنے مطالبے سے دستبردار ہو چکے ہوں گے یا اندرونی خودمختاری واپس حاصل کرنے کی مانگ کو بھول چکے ہوں گے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر