ٹیلن نیوز بند: وجہ بڑھتے اخراجات یا سوشل میڈیا کی بادشاہی؟

ٹیلن نیوز کے نام سے چلنے والے نیشنل ٹی وی چینل کی انتظامیہ نے بدھ کی رات 12 بجے اسے بند کرنے کا اعلان کیا اور سب ملازمین کو ہیڈ آفس سے نکال کر دفتر کو تالے لگا دیے گئے ہیں۔

پاکستان دارالحکومت اسلام آباد میں مختلف نیوز چینلز کی ڈی ایس این جیز 21 اگست 2023 کو کوریج کے لیے سڑک کنارے موجود ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان میں مقامی میڈیا انڈسٹری گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل بحران کا شکار ہے اور وقت کے ساتھ یہ مشکلات مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ انہی بڑھتی مشکلات میں ٹیلن نیوز کے نام سے چلنے والے نیشنل ٹی وی چینل کی انتظامیہ نے بدھ کی رات 12 بجے اسے بند کرنے کا اعلان کیا اور سب ملازمین کو ہیڈ آفس سے نکال کر دفتر کو تالے لگا دیے گئے ہیں۔

ٹیلن نیوز کے نام سے سیالکوٹ کے سرمایہ دار چوہدری سلیم بریار نے کچھ ہی عرصہ قبل یہ چینل لانچ کیا تھا، جس میں ملک بھر سے سینکڑوں صحافی دیگر ادارے چھوڑ کر یہاں ملازمتوں کے لیے آئے تھے۔

بڑے شہروں میں بیورو آفسز، نیوز ٹیم اور معروف اینکرز رکھنے کے باوجود یہ چینل زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔

ٹیلن نیوز کیوں بند ہوا؟

ٹیلن نیوز کے ڈائریکٹر پروگرامز گل نوخیز اختر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ  ’چینل بند کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جب پچھلے سال آٹھ اگست کو چینل آن ایئر کیا گیا اس وقت ملازمین کی تعداد ساڑھے تین سو تھی، جو ڈاؤن سائزنگ کے بعد اب سوا سو رہ گئی تھی۔ چینل کا بجٹ آن ایئر کے وقت آٹھ کروڑ روپے تک تھا جو ڈاؤن سائزنگ کے بعد چار کروڑ تک آگیا۔ لیکن آمدن نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ اشتہارات نہیں ملے جس سے مسلسل نقصان ہو رہا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ جن ملازمین کو اب فارغ کیا گیا ہے انہیں معاہدہ کے مطابق ایک ماہ کی ایڈوانس تنخواہیں ادا کی گئی ہیں۔

’چھ سال پہلے جب میں نے ٹیلن نیوز کو ایک یوٹیوب چینل کی حیثیت سے جوائن کیا تو چیئرمین سلیم بریار پیمرا سے اس کا سیٹلائٹ لائسنس لے چکے تھے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ ٹیلن نیوز کو سیٹلائٹ چینل کے طور پر لانچ کیا جائے۔ میں نے بطور چینل ہیڈ اِس ادارے میں شمولیت کی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ہمارے پاس لگ بھگ 22 لوگوں کا سٹاف تھا اور ایک سٹوڈیو تھا۔ چوہدری صاحب کی خواہش تھی کہ ہم سیٹلائٹ پر جانے سے پہلے سٹاف کو پوری طرح سے ٹرینڈ کریں۔‘

’سلیم بریار جو سیالکوٹ کے نامور بزنس مین ہیں اور پاکستان کے ٹاپ ٹین ایکسپورٹرز میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی فیکٹری ’ٹیلن سپورٹس‘ کے نام سے کام کر رہی ہے، لہذا ان کی خواہش تھی کہ چینل کا نام بھی ’ٹیلن نیوز‘ رکھا جائے۔‘’سلیم بریار کا سیاسی تعلق پہلے ق لیگ پھر تحریک انصاف سے تھا نو مئی کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی چھوڑ کر ق لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ چینل کی کوئی مخصوص پالیسی نہیں تھی۔ البتہ ہم نے ریٹنگ بڑھانے کے لیے زیادہ جھکاؤ پی ٹی آئی کی طرف رکھا۔ ہمارا چینل ٹاپ ٹین میں بھی رہا۔ رؤف کلاسرہ اور اطہر کاظمی کے پروگراموں کی سب سے اچھی ریٹنگ تھی۔‘

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر افضل بٹ کے بقول، ’ٹیلن بند ہونے کے ساتھ کئی دیگر چینلز میں بھی ڈاؤن سائزنگ کے لیے فہرستیں بنائی جا رہی ہیں اور میڈیا اندسٹری پر یہ بحران مزید شدید ہونے کا خدشہ ہے۔‘

افضل بٹ کا کہنا ہے کہ ’کئی سال سے جاری اس بحران کی کئی وجوہات ہیں جن پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے لیے حکومت کے ساتھ بھی گفتگو جاری ہے۔‘

ٹیلن سمیت کئی نیشنل نیوز چینلز میں بطور نیوز ہیڈ کام کرنے والے ندیم رضا کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں جو چینلز پروفیشنل انداز میں چلائے جا رہے ہیں وہی بہتر چل رہے ہیں، مگر جو چینلز مالکان کے دیگر کاروبار بڑھانے اور ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں ان کا چلنا مشکل ہوچکا ہے۔‘

سابق اتھارٹی ممبر پاکستان ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) میاں شمس کے مطابق ’پیمرا مکمل چھان بین اور مالی طور پر مستحکم ہونے کی شرط پر رجسٹرڈ کمپنی کے نام پر 15 سال کی لیز پر لائسنس جاری کرتا ہے۔ پاکستان میں گنجائش کے مطابق ہی ٹی وی چینلز کو چلانے کی اجازت دی جاتی ہے جس میں کام کرنے والے ورکرز کی تنخواہوں کی ادائیگی کو یقینی بنانا بھی شامل ہے۔‘

انتخابات میں توقعات پوری کیوں نہ ہو سکیں؟

عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ نیوز چینلز انتظامیہ ہر بار عام انتخابات کے موقع پر یہ توقع کرتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اشتہاری مہم کی مد میں انہیں کافی رقم موصول ہوگی۔ اس کے علاوہ سرکاری اشتہارات اور نجی کمپنیوں سے اشتہارات ملنے پر آمدن کے مطابق ہر چینل اپنا سالانہ بجٹ بناتا ہے۔

ندیم رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’گذشتہ دو عام انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں نے چینلز کو اشتہارات تو دیے لیکن چینلز کی تعداد زیادہ ہونے اور توقع سے کم اشتہار ملنے کے باعث کئی چینلز اخراجات پورے نہیں کر پائے۔‘

’پہلے تشہیر کا ذریعہ صرف اخبارات یا ٹی وی ہوتے تھے لیکن جب سے سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا عوام میں عام ہوا ہے تو وہاں زیادہ تشہیر پر توجہ دی جاتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے انہیں چینلز کو اشتہارات کی مد میں مالی فائدہ پہنچانا شروع کر دیا جو ان کے بیانیے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں صرف چند چینلز کو ہی اشتہار ملے باقی عوامی سطح پر مہم چلا کر سیاسی جماعتوں نے اپنا کام چلا لیا۔‘

پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کہتے ہیں کہ ’ہر سیاسی جماعت نے اب اپنے سوشل میڈیا پلیت فارم اور پیجز بنا رکھے ہیں جن پر وہ اپنی مرضی کے پیغامات چلا سکتے ہیں۔ اب انہیں میڈیا کی اس طرح ضرورت نہیں رہی جیسے ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ لہذا مہنگائی بڑھنے سے میڈیا مالکان کے اخراجات بڑھ گئے لیکن آمدن مسلسل کم ہو رہی ہے۔ اس صورت حال میں کارکنوں کو تنخواہیں ادا کرنا بھی ان کے لیے مسئلہ بن چکا ہے۔‘

’ایسے حالات میں بعض میڈیا مالکان چینل بند کرنے پر مجبور ہوگئے جبکہ جو چلا بھی رہے ہیں وہاں تنخواہیں مشکل سے ادا کی جارہی ہیں یا کم کر کے دی جا رہی ہیں۔ پہلے سیاسی جماعتوں کو کوریج کے لیے بھی جہاں کیمرے اور صحافیوں کی ضرورت ہوتی تھی وہاں وہ خود موبائل سے ویڈیو بنا کر اور ٹکرز جاری کر دیتے ہیں جس سے صحافی ورکرز کی اہمیت کم ہوئی ہے۔‘

میڈیا انڈسٹری میں بحران کی وجوہات

صدر پی ایف یو جے نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میڈیا انڈسٹری میں بحران کی سب سے بڑی وجہ ٹیکنالوجی چینج ہے جس کا شکوہ کسی سے نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جیسے اخباری صنعت کو چینلز آنے کے بعد شدید دھچکا لگا اسی طرح ڈیجیٹل میڈیا آنے سے چینلز کے حالات خراب ہوگئے۔‘

’پہلے وہی میڈیا ورکر سنبھل پائے جو اخبارات سے نیوز چینلز کی طرف منتقل ہونے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے۔ اب بھی وہی اپنا روزگار بچا پا رہے ہیں جو ٹی وی کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کی جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘

افضل بٹ کہتے ہیں کہ ’یہ تلخ حقائق ہمیں جان لینے چاہییں کہ اب وہی صحافی نوکری بچا پائیں گے جو ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال سیکھ لیں گے۔ اس لیے ہم حکومت، پیمرا اور مالکان کی تنظیم پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) کے ساتھ مل کر صحافیوں کی جدید ٹیکنالوجی سے متعلق تربیت کو یقینی بنا رہے ہیں۔‘

تاہم ندیم رضا کے خیال میں ’میڈیا میں بحران بھی ایک حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ اپنے دیگر کاروباروں کو تحفظ دینے اور چینلز کو تعلقات بنانے کے لیے استعمال سے بھی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ جس طرح پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ سرمایہ دار چینلز خرید رہے ہیں۔ ‘

’وہ اپنی مرضی کے افسران کو انتظامی عہدوں پر تعینات کرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ مہارت کو پس پشت ڈال کر ایسے لوگوں کو عہدوں پر بیٹھا دیا جاتا ہے، جن کا تعلق اعلیٰ سرکاری شخصیات یا عہدیداروں سے ہوتا ہے ان کے ذریعے اپنے کام نکلواتے ہیں۔‘

ان کے بقول: ’میں ٹیلن نیوز سے پہلے بھی کئی نیوز چینلز میں مینجنگ ڈائریکٹر یا ڈائریکٹر نیوز رہا ہوں۔ ہمارے شعبے میں بعض لوگ مالکان کو مفادات کے تحفظ اور اشتہارات کا لالچ دے کر عہدے لیتے ہیں۔ اپنے قریبی اینکرز یا افسران رکھ کر لاکھوں میں تنخواہیں دلواتے ہیں، لیکن چھوٹے ملازمین کم تنخواہ سے استحصال کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں۔‘

’ان کاموں سے بڑے عہدیدار خود بھی لاکھوں روپے تنخواہ کھری کرتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بھی بھاری معاوضے دلواتے ہیں۔ مگر پیشہ ورانہ صلاحیتیں نہ ہونے کے باعث ادارے کو چلانے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے مالک مسلسل نقصان برداشت کرنے کی بجائے یا تو ادارہ بند کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے یا ڈاؤن سائزنگ کرتا ہے۔‘

بحران سے صحافیوں کو بچانے کی حکمت عملی

سابق ممبر پیمرا اتھارٹی میاں شمس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پیمرا اتھارٹی جب بھی کسی کو نیا چینل لانے کی اجازت دیتی ہے اس کے لیے انہیں 15 سال کا لیز پر لائسنس دیا جاتا ہے۔ یہ لائسنس لینے کے ایک سال یا توسیع کی صورت میں ڈیرھ سال تک آن ایئر کرنا ہوتا ہے۔‘

’اگر کوئی پرانا چینل خریدتا ہے تو پی بی اے کی منظوری سے اس کی ملکیت تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے حکومتی اداروں سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور پیمرا میں مکمل دستاویزات جمع کروانا لازمی ہوتی ہیں۔‘

میاں شمس کے مطابق ’چینل چلانے کا لائسنس یا چینلز خریدنے والے کی مالی حیثیت بھی دیکھی جاتی ہے کہ وہ چینل چلانے کی مالی حیثیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ ہر 15 سال کے بعد چھان بین مکمل ہونے پر لائسنس کی دوبارہ تجدید ہوتی ہے۔ اس کے لیے ملازمین کی مکمل تنخواہیں ادا کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔‘

’اس کے علاوہ اگر کسی چینل کا ملازم پیمرا کو عدم ادائیگی کی درخواست دیتا ہے تو اس پر بھی کارروائی کرنے کا اختیار پیمرا کے پاس موجود ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ملک بھر میں اب تک 165 چینلز چلانے کے اجازت نامے جاری ہوئے ہیں۔ جو کہ دنیا کے کئی ممالک کے مقابلے میں کم ہیں۔ ان میں نیوز، انٹرٹینمنٹ اور دیگر چینلز بھی شامل ہیں۔ اگر کوئی چینل بند کرنا چاہے تو اس بارے میں بھی پہلے پیمرا کو آگاہ کرنا پڑتا ہے جیسے ٹیلن مالکان نے بھی کیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان