قومی اسمبلی کے اجلاس میں جمعے کو سات آرڈیننس میں 120 روز کی توسیع کی منظوری سے متعلق قراردایں منظور کر لی گئیں، جن کے حوالے سے وزیر قانون کا کہنا ہے کہ تمام بل اور آرڈیننس کمیٹی میں جائیں گے اور ایوان میں منظوری کے لیے واپس آئیں گے۔
سپیکر ایاز صادق کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے آغاز میں ہی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی پانچ خواتین اراکین نے حلف اٹھایا۔
اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے دیوانی عدالتی آرڈیننس ترمیمی بل 2024 اور قانونی معاونت و انصاف اتھارٹی ترمیمی بل 2024 ایوان میں پیش کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے آرڈیننس میں توسیع پر تحفظات کا اظہار کیا، جس پر سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے متعلق معاملات ہیں، اس حوالے سے ملک کو نقصان ہو سکتا ہے۔
قادر پٹیل نے کہا کہ ’یہ تمام آرڈیننس نگران حکومت نے بنائے، جو مینڈیٹ سے باہر گئی۔‘
انہوں نے نگران حکومت کی جانب سے کیے گئے فیصلوں پر کمیٹی بنانے سے متعلق مطالبہ بھی کر دیا۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے کہا کہ عجلت میں آئی ایم ایف کی ایما پر آرڈیننس کی توسیع مانگی جا رہی ہے۔ بعد ازاں جے یو آئی نے آرڈیننس کو باقاعدہ بلز کی صورت میں متعارف کروانے کا مطالبہ کر دیا۔
اجلاس کے دوران سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سات آرڈیننس ایوان میں پیش کیے جس پر اپوزیشن کی شدید مخالفت جاری رہی۔ اپوزیشن نے ’نو، نو‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے اور قرارداد کی تحریک پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اعظم نذیر تارڑ نے ان آرڈیننسوں کی مدت میں مزید 120 دن کی توسیع کی قرارداد بھی پیش کی۔
اس دوران حکومتی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سید نوید قمر نے بھی آرڈیننسوں پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ انہیں کچھ آرڈیننسوں پر شدید تشویش ہے۔
نوید قمر کے مطابق: ’اگر ایسے ہی منظوری کروانی ہے تو پھر گھر سے بیٹھ کر کروا لیں۔ آرڈیننس کی منظوری ایسے نہ کی جائے کہ یہ قابلِ واپسی نہ ہو۔‘
سپیکر نے آرڈیننس کی مدت میں مزید توسیع کی قرارداد کی تحریک پر گنتی کروائی۔ 130 اراکین نے تحریک کے حق میں جبکہ 63 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
بعد ازاں سال 2023 کے پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن ترمیمی آرڈیننس، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ترمیمی آرڈیننس، پاکستان پوسٹل سروسز مینیجمنٹ بورڈ ترمیمی آرڈیننس، نیشنل ہائی وے اتھارٹی ترمیمی آرڈیننس، فوجداری قانون ترمیمی آرڈیننس، نجکاری کمیشن ترمیمی آرڈیننس اور ٹیلی مواصلات اپیلیٹ ٹریبیونل اتھارٹی کے قیام کے آرڈیننس میں 120 روز کی توسیع کی قرارداد منظور کر لی گئیں۔
جس دوران آرڈیننسوں کی منظوری دی جا رہی تھی، تب سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے ایوان میں احتجاج شروع کر دیا اور اپوزیشن نے آرڈیننس اور اجلاس کے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر پھینکیں۔
سپیکر قومی اسمبلی نے اپوزیشن اراکین کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ ایوان میں کاغذ پھاڑ کر پھینکنے کا سلسلہ بند کریں۔ ’آپ مجھے مجبور کر رہے ہیں کہ ڈسپلنری ایکشن لوں۔‘
ایاز صادق کا مزید کہنا تھا: ’اس کمیٹی میں اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں کی نمائندگی ہوگی۔ اپوزیشن کو بھی کہتا ہوں کہ یہ ملک دشمنی چھوڑنا پڑے گی۔ آئی ایم ایف اور یورپی یونین کو خط لکھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔‘
اپوزیشن کے اس شدید احتجاج کے دوران تقسیم کی تمام قراردادیں منظور کی گئیں۔
عمر ایوب کو بات نہیں کرنے دی جاتی: اسد قیصر
پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے رہنما اسد قیصر نے کہا کہ ’شہباز شریف جب اپوزیشن لیڈر تھے تو وہ گھنٹوں بات کرتے تھے۔ عمر ایوب اپوزیشن لیڈر ہیں پھر بھی انہیں بات نہیں کرنے دی جاتی۔‘ جس پر سپیکر نے کہا کہ وہ ابھی اپوزیشن لیڈر نہیں بنے سکروٹنی کا عمل جاری ہے۔
اسد قیصر نے نوید قمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کہتے تھے کہ ہم قانون اور رولز کے خلاف نہیں جائیں گے، آپ بھی آج ایوان میں موجود ہیں اور یہاں کیا ہو رہا ہے۔‘
مشترکہ اپوزیشن لیڈر کے لیے نامزد امیدوار اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب خان نے کہا کہ آرڈیننس کیا ہے یہ بھی دیکھا جائے۔ ہوسٹل سروسز سے متعلق آرڈیننس پیش کیا گیا ہے۔
عمر ایوب نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا: ’حلف دے کر بتائیں اس ایوان میں کتنے لوگوں نے اس آرڈیننس کو پڑھا ہے؟ یہ حکومت والے اپنے خوانچے بنا رہے ہیں۔ نیشنل شپنگ کمپنی میں جو آرڈیننس پیش کیا جا رہا ہے اس کو بتائیں کس کمیٹی میں پیش کیا گیا ہے؟ اس ایوان میں بیٹھے افراد بتائیں کتنے لوگوں نے اسے پڑھا ہے؟‘
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس معاملے پر کمیٹی بنانے کی ہدایت جاری کی ہے۔
اعظم نذیر تارڑ کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے دوبارہ احتجاج شروع کر دیا۔ وزیر قانون نے کہا کہ تمام بل اور آرڈیننس کمیٹی میں جائیں گے اور ایوان میں واپس آئیں گے، پارلیمنٹ سے ان کی منظوری لی جائے گی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا وہ اپوزیشن سے متفق ہیں۔ حکومتیں آرڈیننسوں پر نہیں چلتیں، یہ ایوان قانون سازی کے لیے ہے۔ سال 2008 سے 2022 تک کا ریکارڈ نکالا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ صدارتی آرڈیننس کس دور میں سب سے زیادہ پیش ہوئے؟
دوسری جانب قومی اسمبلی نے غزہ فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت کی مذمت کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے۔
قرارداد کے متن کے مطابق: ’ایوان آج کے دن کو عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا قرار دیتا ہے اور فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتا ہے اور حکومت پر سیز فائر کے لیے عالمی برادری پر زور دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔‘
بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔