پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور اتحادی جماعتوں کے امیدوار شہباز شریف اتوار کو 201 ووٹ لے کر وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔
آج شہباز شریف وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی میں پہنچے تو صحافیوں سمیت پارٹی کارکنان ان کا انتظار کرتے دکھائی دیے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل اتحادی جماعتوں کی ایک مشترکہ پارلیمانی پارٹیز کی میٹنگ بھی ہوئی، جس میں شرکت کے لیے شہباز شریف پہنچے تو ان کی بدن بولی اور چہرہ ہشاش بشاش نظر نہیں آیا۔
ان کے سکیورٹی عملے سے پوچھا تو پتہ چلا کہ ان کی طبعیت خراب ہے اور انہیں نزلہ زکام ہے، شاید اسی لیے انہوں نے ماسک بھی پہنا ہوا تھا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو گذشتہ روز کے برعکس اپوزیشن اور حکومتی اراکین اپنے قائدین عمران خان، نواز شریف اور شہباز شریف کی تصاویر اٹھائے ایوان میں نظر آئے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین آئے تو انہوں نے عمران خان کے حق میں نعرے بازی کی اور میزوں پر ان کی تصاویر لگا دیں۔ اس دوران حکومتی بنچز پر خاموشی دکھائی دی۔
وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا آغاز ہوا تو اپوزیشن بنچز سے نعرے بازی شروع ہو گئی۔ اس دوران پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ جمشید دستی ہاتھ میں بوٹ اور برش کچھ دیر ہوا میں لہراتے رہے۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے چونکہ وزیر اعظم کے الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا تھا لہٰذا جے یو آئی کی عالیہ کامران ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ایوان سے چلی گئیں۔
انتخابی عمل کے دوران پی ٹی آئی سے وابستہ شیر افضل مروت نے اپنی نشست پر کھڑے ہو کر کہا ’ڈاکہ ڈال کر یہاں آئے ہو، کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔‘
بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے رہنما سردار اختر مینگل نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی تقریباً 10 منٹ انہیں شہباز شریف کے لیے ووٹ دینے پر مناتے رہے۔
سنی اتحاد کونسل کے رہنما عامر ڈوگر نے بھی ان کے پاس جا کر منانے کی کوشش کی تاہم وہ اپنی نشست پر بیٹھے رہے۔
اپوزیشن اراکین کی نعرے بازی کے باعث ن لیگ کے کئی رہنما شہباز شریف اور نواز شریف کی نشستوں کے سامنے کھڑے رہے۔ اسی طرح پی پی پی کے رہنما بھی اپنے لیڈروں بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کے آس پاس بطور انسانی ڈھال موجود رہے۔
ووٹنگ مکمل ہونے سے قبل سپیکر ایاز صادق نے اختر مینگل سے پوچھا کہ کیا ووٹنگ مکمل کر دوں؟ اس پر اختر مینگل نے سر ہلا کر ہاں کہا تو انہوں نے مکمل ہونے سے متعلق مائک میں اعلان کیا۔
سپیکر ایاز صادق نے جب شہباز شریف کی فتح کا اعلان کیا تو وہ تمام اتحادیوں کے پاس گئے اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ دوسری جانب اپوزیشن نے شدید احتجاج شروع کیا تو سارجنٹ ایٹ آرمز فلور پر اراکین کے ارد گرد آ گئے۔
اس دوران شہباز شریف روسٹرم پر آئے اور تقریر شروع کر دی، جو شور شرابے کی وجہ سے پریس گیلری میں سنائی ہی نہ دی۔
ان کی تقریر کے دوران اپوزیشن مسلسل احتجاج کرتی رہی۔ اپوزیشن اراکین کبھی ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر اڑاتے تو کبھی عمران خان کی تصاویر اٹھا کر نعرے مارتے ہوئے شہباز شریف کی جانب بڑھتے جبکہ مسلم لیگ ن کے رکن کھیل داس کوہستانی ہوا میں گھڑی لہراتے رہے۔
تقریباً ایک گھنٹے 22 منٹ تقریر کرنے کے بعد جب شہباز شریف روسٹرم سے اترے تو قومی اسمبلی قوائد و ضوابط کے مطابق قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے تقریر کرنا تھی۔
وہ روسٹرم پر آئے تو مسلم لیگ ن نے بھی ان کے سامنے نعرے بازی شروع کر دی لیکن ایک بات مختلف تھی۔ یہاں نہ تو احتجاج کرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی اور نہ انہوں نے زیادہ دیر احتجاج کیا۔
عمر ایوب خان کی تقریر کے دوران ڈپٹی سپیکر غلام مصطفی نے انہیں دو دفعہ تقریر سمیٹنے کو کہا حالانکہ پارلیمانی قائد و ضوابط کے مطابق قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان کو تقریر کے دوران ٹوکنا یا انہیں تقریر ختم کرنے کا نہیں کہا جا سکتا۔
عمر ایوب خان کی تقریر کیسے نشر ہو گئی؟
عمر ایوب کی تقریر کے دوران ان کے پیچھے ایک رکن اسمبلی بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم کی، جو ان دنوں اڈیالہ جیل میں قید ہیں، تصویر اٹھائے کھڑا رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرکاری ٹیلی وژن پارلیمنٹ (پی ٹی وی) نے غالباً اسی وجہ سے یا تو عمر ایوب کو زوم ان کر کے دکھایا یا انہیں سکرین پر سرے سے ہی غائب کر دیا۔
ان کی تقریر کے دوران سارجنٹ ایٹ آرمز کا ایک پریشان اہلکار بھاگتے ہوئے پریس گیلری میں آیا اور کسی کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔
صحافیوں کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے۔ اہلکار سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ ایک نجی نیوز چینل عمر ایوب کی تقریر لائیو نشر کر رہا ہے۔
صحافیوں کو پھر بھی سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ اہلکار نے بتایا کہ ’جب پی ٹی وی پارلیمنٹ عمر ایوب کی دکھا ہی نہیں رہا تو اے آر وائی یہ تقریر کیسے دکھا رہا ہے‘ کیونکہ ایوان کی کارروائی نشر کرنے کا اختیار صرف پی ٹی وی ہی کے پاس ہے۔
بعد ازاں اسی اہلکار سے معلوم ہوا کہ ’اے آر وائی سے منسلک رپورٹر چوتھے فلور سے اپنے موبائل فون سے عمر ایوب کی تقریر اپنے چینل پر براہ راست لائیو دکھا رہا تھا۔ موبائل فون سے نشریات تو رک گئیں تاہم رپورٹر نہیں مل سکا۔‘
عمر ایوب نے بھی ڈپٹی سپیکر کو مخاطب کر کے کہا ’پی ٹی وی میری تقریر نہیں دکھا رہا، کاٹ رہا ہے۔ انہیں اس سے متعلق ہدایت کریں۔‘
کچھ دیر بعد ڈپٹی سپیکر نے کہا ’پی ٹی وی کہہ رہا ہے کہ اشتہارات چل رہے ہیں۔ شاید اس وجہ سے نہیں چل رہی تقریر۔‘
یہ سن کر ایوان اور پریس گیلری میں قہقہوں کی آوازیں گونج اٹھیں۔ بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس کل تک ملتوی کر دیا گیا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔