مارچ کا وسط چل رہا ہے مگر موسم میں ایک یخ بستگی ہے جس کا باعث پہاڑوں پہ ہونے والی بے موسم کی برف باری ہے۔ موسموں کا صدیوں پرانا طرز بدل رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی بات ہم کئی برس سے سن رہے ہیں مگر اب یہ حقیقت ہمارے سامنے کھڑی ہے۔ موسمی تغیر و تبدل کے نتیجے میں سماجی طور پہ سب سے زیادہ وہ خطے متاثر ہوں گے جہاں کی معیشت زراعت پہ منحصر ہے۔
ان تبدیلیوں کے نتیجے میں سیلاب بھی آئیں گے، خشک سالی بھی ہو گی، اولے بھی پڑیں گے، آندھیاں اور سائیکلون بھی آئیں گے، زلزلے اور گلیشئرز کے پھٹنے کے واقعات بھی رونما ہوں گے۔
فطرت اپنے ساتھ کی گئی فالتو چھیڑ چھاڑ کو درست کرنے کے لیے کروٹ لے گی اور انسانی بستیاں اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔
گوادر میں ہونے والی حالیہ بارشوں کا پانی اب بھی وہیں موجود ہے۔ وہاں کی انسانی آبادی اب بھی ریلیف کی منتظر ہے اور اس آبادی کا ایک بڑا حصہ، عورتوں، بچوں اور ضعیف افراد پہ مشتمل ہے۔
ریلیف نہیں آئے گا۔ ریلیف کہاں تک آئے گا؟ ان تباہیوں کا سکیل ہر گزرتے موسم کے ساتھ بڑھتا جائے گا۔ یہ اب ایک باقاعدہ طرز حیات بننے والی ہیں۔
اس وقت اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ صدیوں سے آبادیوں میں رہنے والوں کو تباہی کے دوران نکل بھاگنے یا ایویکیویٹ کرنا سکھایا جائے۔
جب بھی کسی دیہی علاقے پہ سیلاب، بارش یا زلزلے جیسی آفات آتی ہیں تو وہاں کی آبادی سے مرد تو امداد لینے یا کسی اور وجہ سے نکل جاتے ہیں، خواتین اور بچے یا تو گھر کے مال مویشیوں یا گھر کے سامان کی دیکھ بھال کے لیے پیچھے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تباہی کی اگلی لہر میں ان کے بچاؤ کے تمام راستے کٹ جاتے ہیں اور اس طرح وہ آفت زدہ علاقے میں محصور ہو جاتے ہیں۔
ریلیف کا کام کرنے والے مخصوص کیمپوں تک تو پہنچ جاتے ہیں مگر پیچھے پھنسے ہوئے لوگ مختلف المیوں کا شکار ہوتے ہیں۔
خاص کر خواتین کو اور دیہی علاقوں کی خواتین کو جو موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والی بیلٹ میں رہائش پذیر ہیں، ڈرل کے ذریعے یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ تباہی کی صورت میں کیا فیصلہ لینا ہے۔
گھر سے نکلتے ہوئے کیا سامان ساتھ لیا جائے اور کیا پیچھے چھوڑا جائے۔ یوں تو یہ تربیت کسی ہنگامی صورت حال کے بغیر بھی ہونی چاہیے تھی، لیکن سالہا سال کے غیر فطری پدر سری نظام نے عورتوں سے بقا کی یہ صفت بھی چھین لی ہے۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والا آٹھواں ملک ہے اور عورتوں کے ساتھ حسن سلوک میں ہمارا نمبر نیچے سے دوسرا یعنی 145واں ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں کی زنانہ آبادی پہلے ہی سماجی رویوں کے عذاب سہہ رہی ہے، وہاں آسمانی تباہی سب سے زیادہ عورتوں کو متاثر کرے گی۔
کسی بھی نوع کی تباہی کے دیگر عوامل کے ساتھ ایک اہم ترین عنصر یہ ہے کہ اس نوع کی مادائیں کسی وجہ سے کم ہو جائیں۔
پاکستان میں ابھی عورتوں کا تناسب 52 فی صد ہے۔ آبادی کے اس بڑے حصے کو خود پہ ٹوٹنے والی تباہی سے آشنا ہونے اور اس سے نمٹنے کی تربیت جنگی بنیادوں پہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
نقل مکانی، چاہے کسی بھی مقصد کے لیے ہو، اس میں سب سے زیادہ عورت متاثر ہوتی ہے۔
حاملہ عورت، دودھ پلانے والی عورت، جوان لڑکیاں، عورتیں، یہ سب نہ صرف اپنے گھروں سے باہر موسموں کے رحم و کرم پہ ہوتی ہیں بلکہ سماجی لحاظ سے بھی شدید غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں اب یہ آفات مسلسل آئیں گی اور ان کا سکیل اتنا بڑا بھی ہو سکتا ہے کہ ریلیف ممکن نہ ہو۔
عورتوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ان مشکلات سے نمٹنے اور دوسری جگہ جا کے بسنے اور اپنے کنبے خاندان کو لے کے چلنے کی تربیت دینے کی شدید ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب روایتی انتظامی صلاحیت کے لحاظ سے تو بہترین اقدامات کر رہی ہیں ہیں مگر اس وقت ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ موسمیاتی تبدیلی ہی ہے اور اس سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے ۔ ممکن ہے فطرت کو انسان پہ رحم آجائے اور صورت حال شاید اتنی خوفناک نہ ہو جتنی اس وقت نظر آرہی ہے لیکن دعاؤں کا ایک وقت ہوتا ہے، جو شاید گزر چکا۔
مصیبت سامنے کھڑی ہے۔ آنکھیں بند کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ پنجاب کے ساتھ ساتھ باقی تمام صوبے بھی اسی جگہ کھڑے ہیں۔
مرکز میں شہباز شریف صاحب کے ساتھ محسن نقوی، جو اپنی انتظامی صلاحیتوں کے بل بوتے پہ بہت تھوڑے عرصے میں وزیر داخلہ کے عہدے پہ پہنچ چکے ہیں، یہ سب لوگ ایک مضبوط ٹیم نظر آتے ہیں۔
ایسی ٹیم خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کے ایک بڑے فریم ورک کے ذریعے اس کام کی ابتدا کر سکتی ہے۔
کرکٹ کھیلیے، معیشت بحال کیجیے، صاف ستھر شہر اور آئی ٹی ٹاورز تعمیر کیجیے مگر ان قدرتی آفات سے بچنے کی سبیل بھی کیجیے۔
سندھ، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں بھی اس نہج پہ کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی پکار ہے جسے نہ سنا گیا تو ایک بڑے انسانی المیے کے جنم لینے کا خوف ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔