زندہ بیٹی گھر میں ہے، شکر کیجیے

ڈسکہ کی اس مقتولہ کے سسرال کے بارے میں آج تمام اہل محلہ ایک رائے ہیں کہ یہ سخت دل لوگ تھے اور ان کی کارروائیاں ہمیشہ ہی سے مشکوک رہی ہیں۔ یہ ہی اہل محلہ کیا اس سانحے یا اس شادی سے پہلے لڑکی کے خاندان کو خبردار نہیں کر سکتے تھے؟

سات مئی 2021 کو لاہور میں عید الفطر سے قبل ایک دلہن بادشاہی مسجد میں رمضان کے آخری جمعے کو نماز ادا کر رہی ہیں (اے ایف پی / عارف علی)

وسطی پنجاب کے شہر ڈسکہ میں اس مہینے پیش آنے والے ایک دلخراش واقعے میں ساس اور نند نے ایک رشتے دار کے ساتھ مل کر اپنی حاملہ بہو کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

یہ خبر دس بارہ راتوں سے مجھے سونے نہیں دے رہی۔ جب میں نے ’جہیز‘ ڈرامہ لکھا اور اس میں سسرال والوں کے ہاتھوں ایک بہو کو زندہ جلایا گیا تو اپنے پرائے ہر شخص نے تنقید کی کہ ایسا کہاں ہوتا ہے؟

’آخری سٹیشن‘ میں شکی شوہر کے ہاتھوں تیزاب گردی کا شکار ہونے والی لڑکی کی کہانی دکھائی تو اکثر تقریبات میں لوگوں کے چبھتے ہوئے جملے سننے کو ملے، ’یہ تو شرمین بننے چلی ہیں ہمارے ملک کی بری تصویر دکھا رہی ہیں۔‘

’الو برائے فروخت نہیں ہے‘ میں سسر کے ہاتھوں نوبیاہتا بہو کا قتل دکھایا تو ایک نجی چینل نے مجھ پہ باقاعدہ ’ڈارک‘ لکھنے کا ٹیگ چسپاں کر دیا اور اب میری کہانی لے کر جانے والے پروڈیوسرز کو دیکھتے ہی سارے چینل کا کانٹینٹ ڈیپارٹمنٹ میز کے نیچے چھپ جاتا ہے اور کہتا ہے ہم اتنی ڈارک سٹوریز نہیں دکھا سکتے۔

میرا دل بھی نہیں چاہتا کہ میری کہانیوں کے کردار مرتے، کٹتے، جلتے اور روتے ہوئے نظر آئیں۔ میں بھی ایک حسین ہیروئین جو بقول فردوس جمال صاحب چودہ پندرہ سال یا زیادہ سے زیادہ سترہ اٹھارہ سال کی ہو، اور ایک نٹ کھٹ ہیرو کی اول اول عشق کی داستان لکھنا چاہتی ہوں۔ بخدا میں یہی لکھنا چاہتی ہوں۔

مگر اس کا کیا کروں کہ کئی راتوں سے ڈسکہ کی وہ معصوم پیاری چلبلی لڑکی نظر سے ہی نہیں جا رہی۔ اس کی ساس کے چہرے پہ چھائی رعونت بہت دیکھی دیکھی لگتی ہے۔ کتنا شناسا چہرہ ہے۔ نند کی آنکھوں کی سفاکی اور بتائی گئی کہانی کے بڑے بڑے جھول۔

بیٹیاں بہت پیاری ہوتی ہیں، پھر ہم ان کی شادیاں کر دیتے ہیں اور جن لڑکوں کے حوالے ہم انہیں کرتے ہیں وہ ان سے چاہے کتنی بھی محبت کریں ان کو اپنے گھر والوں کے آگے پھینک دیتے ہیں۔

گھر والے کبھی شاید انسان رہے ہوتے ہیں مگر جس روز ان کے گھر پہ باجے بجتے ہیں اور ان کا بیٹا دولہا بنتا ہے وہ انسانیت کا چولا اتار کے اپنے اصل روپ میں آ جاتے ہیں۔ بارات کے استقبال، دولہا کے رشتے داروں کو صوفوں پہ بٹھانے، بکرے کے بوٹیاں اور بوتل پیش کرنے سے لے کے لڑکی کی شکل و صورت، شادی ہال کے معیار، جہیز، لڑکی کی تعلیم اور اس کی پھپھی کی طلاق سے لے کر بات وہاں تک پہنچتی ہے جہاں اس واقعے میں پہنچی۔

جو ماں اتنی سفاک تھی کہ اپنی حاملہ بہو کے ٹکڑے کرنے کے لیے، بغدہ، چھری اور مڈھی خود خرید کے لائی اس ماں نے ایک اچھے انسان کو کیسے جنم دیا ہو گا؟

شادی کرتے ہوئے ماں باپ کیا دیکھتے ہیں؟ چچا کا لڑکا، پھپھی کا بیٹا، خالہ کا لڑکا، بہن کا دیور، کیونکہ اپنا ہے تو مار کے چھاؤں میں ڈالے گا۔ یہ سماجی توقع رکھتے ہوئے جب رشتے کیے جاتے ہیں تو وہ لڑکیاں جو آج تک زندہ بیٹھی ہیں صرف خوش نصیب ہیں۔

لڑکوں کے لیے اچھا کمانا، موروثی جائیداد یا اچھی ڈگری کافی سمجھی جاتی ہے۔ ہم لڑکیوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ اجنبیوں سے بات نہ کرو کیونکہ ایک دن ہم نے تم کو ایک اجنبی کے پلے ہی باندھنا ہے۔

جوائنٹ فیملی ایک جنجال بن چکی ہے ، شادی کا ادارہ تباہ ہو چکا ہے اور ہمارے ایک دوست کے بقول معاشرے میں باپ کا کردار ختم ہو رہا ہے۔ عورت ماں تو بننا چاہتی ہے لیکن ماں بننے کے لیے اسے جن تلخ رویوں اور رشتوں کو سہنا پڑتا ہے اگر ان کی اصلاح نہ کی گئی تو شاید معاشرے میں (موجودہ) ماں کا کردار بھی خطرے میں پڑ جائے۔

حالیہ واقعے کی صرف ایک سرسری سی خبر نے ہی ہلا کر رکھ دیا۔ مجھے اپنے پراجیکٹس کے سلسلے میں ریسرچ کے دوران اس طرح کے کئی واقعات دیکھنے اور متاثرہ خواتین سے ملنے کا موقع ملا۔ کہیں نہ کہیں جا کے سب کہانیاں مل جاتی ہیں۔

ہر کہانی کی بنیاد میں دھوکہ دہی سے کی گئی شادیاں، لالچ، حسد جلن اور سب سے بڑھ کر عورت کا کمزور ہونا ہی جرم کا محرک ہوتا ہے۔ عورت کی مضبوطی نہ اسے تعلیم دلا سکتی ہے نہ پیسہ نہ جائیداد۔

تعلیم یافتہ، جائیداد والی اور امیر عورت تو شکاری خاندانوں کو دور سے نظر آجاتی ہے۔ ان بظاہر طاقتور عورتوں کی کہانی تو اور بھی دکھی ہوتی ہے۔ ان کو جن بغدوں سے ٹکڑے کیا جاتا ہے وہ تو نظر بھی نہیں آتے۔

مسائل کا حل کیا ہے؟ معاشرتی مسائل، معاشرے کے کھڑے کیے ہوئے ہی ہوتے ہیں اور ان کو حل بھی معاشرہ کرتا ہے۔ ادیب کا کام صرف نشاندہی کرنا ہوتا ہے۔ معاشرے کے جن ٹھیکیداروں کو معاشرے اور خاندانی نظام کے امیج کی فکر کھائے جاتی ہے وہ ادیبوں کو دھمکانے اور سب اچھا ہے کی تکرار کرنے کی بجائے اپنے آس پاس نظر دوڑائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈسکہ کی اس مقتولہ کے سسرال کے بارے میں آج تمام اہل محلہ ایک رائے ہیں کہ یہ سخت دل لوگ تھے اور ان کی کارروائیاں ہمیشہ ہی سے مشکوک رہی ہیں۔ یہ ہی اہل محلہ کیا اس سانحے یا اس شادی سے پہلے لڑکی کے خاندان کو خبردار نہیں کر سکتے تھے؟

کر سکتے تھے مگر اس وقت ماں باپ کے دماغ میں صدیوں کی بنائی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے اور آنکھوں پہ کھوپے چڑھ جاتے ہیں۔ وہ محلے داروں کی ایک نہیں سنتے، اپنے اندر لگے قدرتی سینسر کی ہر آگہی کو نظر انداز کرتے ہیں اور لڑکی کو ایک بوجھ کی طرح سر سے لڑھکا دیتے ہیں۔

میں پھر کہوں گی کہ جو زندہ ہیں وہ خوش نصیب ہیں اور سروائیور ہیں۔ ان کی کہانیاں تو سنانے کے لائق بھی نہیں کیونکہ سروائیور کی کہانی میں سمجھوتوں کے اس قدر تاریک موڑ ہوتے ہیں کہ نہ وہ قابل اشاعت ہوتے ہیں اور نہ ہی سکرین پہ دکھائے جاتے ہیں۔

زندہ بیٹی، آپ کے گھر میں بیٹھی ہے شکر کیجئے۔ اس کی شادی ہوئی، یا ہو کر ختم ہو گئی وہ آپ کے پاس ہے اور زندہ ہے۔ آپ خوش نصیب ہیں۔ اپنی بیٹیوں کو باقی حقوق دیجیے یا نہ دیجیے زندہ رہنے کا حق ضرور دیجیے۔

کتنی صدیوں سے میں ڈھونڈتی ہوں اسے
اک وہ بستی جہاں مجھ سے انصاف ہو

بے بسی اور تشدد سے یکسر الگ
ایک ایسی فضا جو کہ شفاف ہو

آئینے کو مرے اب چمک چاہیے
مجھے اپنے جینے کا حق چاہیے

وہ زمیں جس پہ میرے قدم جم سکیں
اور سر پہ کشادہ فلک چاہیے
(امجد اسلام امجد )

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر