کچن عورت کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
کھانے کو رکاوٹ نہیں بول رہا، کچن کی بات ہو رہی ہے۔ آپ کھائیں گے نہیں تو ظاہری بات ہے زندگی نہیں چلے گی لیکن عورت کو باورچی خانے سے باندھ کے جتنا بڑا ظلم انسانی تاریخ نے کمایا ہے، اس کی مثال مشکل ہے کوئی اور ملے۔
اپنے آس پاس نظر دوڑائیں، عورت جب بھی کام کرنا چھوڑے گی اپنا کرئیر تباہ کرے گی، اس کی سب سے بڑی وجہ گھر ہو گا۔ گھر بولے تو کیا؟ ستر فیصد جو گھر ہے وہ کچن ہے آپ کا۔
گرم اور گول روٹی چاہیے، ترتراتا ہوا بگھارا سالن چاہیے، ہر دو گھنٹے بعد چائے کا موڈ ہو رہا ہے، آج کباب کھانے ہیں، کل بریانی کا دل چاہے گا، گھر کے مصالحوں سے بنوائیں گے، بازاری مرچیں تک نئیں ڈالنی ۔۔۔ یہ سب چیزیں فساد کی جڑ پیں۔
متوازن خوراک انسان کا بنیادی حق ہے لیکن چھ بندوں کی متواتر خوراک کا بندوبست ایک بندی پہ ڈال کے اس کا فرض بنا دینا، یہ سراسر ناحق ہے!
ہمیں مغرب کی ترقیاں بڑی پسند ہیں لیکن ان کی طرح کھانے اور ہل جل کے کچھ بھی کرنے سے ہمیں نفرت ہے۔ سیدھی ترین بات ہے کہ جس کا دل کرے وہ خود جائے کچن میں، یا فون پہ منگائے اور یا پھر باہر جا کے پسند کی چیز لے آئے، نوش جان کرے، کون روکتا ہے؟
ہوتا یہ ہے کہ اگر آپ کی فیملی تین بندوں کی بھی ہے تو صرف کچن کے پھیرے ایک انسان کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ کرنے کے لیے کم از کم ایک دن کے لیے آپ کو اپنے گھر میں کھانے پکانے کا انتظام کرنا پڑے گا ورنہ اسی طرح آپ مجھے گالیاں دیتے رہیں گے جیسے ابھی دے رہے ہیں۔
آج کیا پکانا ہے، کل کیا پکائیں، ابا جی کیا کھائیں گے، چھوٹے نے کس چیز پہ منہ بنانا ہے اور شوہر نے کس چیز کو اوکے کرنا ہے، یہ سب اتنے پیچیدہ سوال ہیں کہ انہیں بیلنس کرتے کرتے ایک ڈاکٹر اپنی پریکٹس چھوڑ کے گھر بیٹھ جاتی ہے۔
بزرگوں کی خدمت ضرور کریں لیکن اس کے لیے کوئی مددگار رکھے جا سکتے ہیں اور جس ٹائم تک ہماری بزرگ بننے کی باری آئے گی تو اس وقت کے لیے اپنے جوگی کوکنگ سیکھنے کا بندوبست آج سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
لڑکا ہو یا لڑکی، جب تک ہمارے بچے اور ہم خود، کھانا بنانے اور برتن دھونے کے معاملے میں خودکفیل نہیں ہوتے تب تک ہم گھر کی بہو یا بیٹی کو الزام نہیں دے سکتے کہ اس نے گھر بیٹھ کے اپنے آپ کو ضائع کیا۔ گھر میں بیٹھنے دیتا ہی کون ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے!
اس دن بانو قدسیہ آپا کی ویڈیو دیکھ رہا تھا، وہ کہہ رہی تھیں کہ ’جب آپ نے کسی کے لیے گرم چپاتی پکا کے میز پہ نہیں رکھنی تو ایک رابطہ ٹوٹ گیا نا جی۔‘ بیک گراؤنڈ یہ تھا کہ پیسہ بڑی سہولت پیدا کر دیتا ہے لیکن رابطے اور محبت اس لیے ختم ہو جاتے ہیں کہ بیوی میاں کے چھوٹے چھوٹے کام نہیں کرتی، دباتی نہیں، بوڑھی ساس سے باتیں نہیں کرتی، گیزر کی ایجاد کے بعد وہ میاں کو نہانے کے لیے پانی گرم کے نہیں دے پاتی، وغیرہ وغیرہ۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی باتیں بڑی اچھی اور دھیمی آنچ والی تھیں لیکن میرے خیال میں اگر میاں اکیلا کما رہا ہے اور بیوی غریب اس سب سے بہت زیادہ کچھ بھی کر رہی ہے تو وہ بہرحال تباہ ہے۔ میں آج فوت ہو جاتا ہوں تو میری اس طرح کی بیوی کا مالی کفیل کون ہو گا؟ جب کہ میں ایک لوئر مڈل کلاس بندہ ہوں؟ وہ ساری عمر مجھ پر سو فیصد ڈیپنڈ کیوں کرے؟ ایک ایک پیسے کے لیے میرا منہ کیوں دیکھے؟ اس سے بہتر نہیں کہ میں اپنا کام کروں اور وہ اپنا روزگار کمائے؟ بے شک کھانوں اور گھر کے کاموں کے لیے بعد میں دونوں مل کر اپنے پیسوں سے کوئی مددگار رکھ لیں؟
بیٹی کو ہم یہ کیوں سکھائیں کہ تم نے جا کے میاں کی ٹانگیں دبانی ہیں، گھر صاف کرنا ہے، کھانے بنانے ہیں، چوبیس گھنٹے مسکرا کے ماسٹر کا مولٹی فوم تیار رکھنا ہے، دن کا زیادہ تر حصہ کچن اور لانڈری میں گزارنا ہے؟ یہ کیوں نہ سکھائیں کہ بیٹی اگر کوئی ہنر آتا ہے تو اپنی روزی کمانے کا بندوبست کرو، میاں کی مالی طور پہ مدد کرو، وہ ساری سہولتیں اس پیسے سے پیدا کرو، اور اگر نہیں آتا تو سیکھ لو تاکہ اپنی زندگی آسودہ رکھ سکو۔
اپنے گھر کی بچیوں کے مددگار بنیں۔ کھانا پکانا سکھائیں لیکن انہیں کچن سے نہ باندھیں، کوئی ہنر سیکھنے دیں، کوئی تعلیم لینے دیں، کوئی کاروبار شروع کروا دیں، کسی طرح بس کوشش کریں کہ وہ مالی طور پہ اپنا بوجھ خود اٹھا سکیں۔ ایسا ہو گا تو انہیں کسی بھی رشتے سے زبردستی جڑنا نہیں پڑے گا، بندھنا نہیں پڑے گا اور اپنی زندگی میں اپنی مالک و مختار وہ خود ہوں گی۔
یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تو اپنے بیٹوں کو تھوڑا کچن کا علم سکھا دیں، اللہ خیر کرے گا، وہ آگے اپنے خاندانوں کی زندگیاں بہتر کریں گے، آپ کا صدقہ جاریہ چلتا رہے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔