نعرے لگے، مارچ ہوا، مل گئے سارے حقوق، ہوگئے سب آزاد، سورج ڈھل گیا، رات پڑی اور سب سکون سے سو گئے۔
یہ کہانی صرف آج کی نہیں ہر سال کی ہے اور ہر سال اس کہانی کے چند کردار تبدیل ہوتے ہیں، چند ڈائیلاگ تبدیل ہوتے ہیں مگر مقصد وہی ہوتا ہے کہ جس کا مقصد ہی آج تک گھریلو خواتین کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے۔
آج سے چند سال پہلے جب ’عورت مارچ‘ شروع ہوا تھا تو کچھ خواتین کے الفاظ آج بھی یاد ہیں، جنہوں نے ویڈیو دیکھتے ہی کہا کہ ’یہ ویڈیو پاکستان کی ہو ہی نہیں سکتی۔‘
ہر سال مارچ کا مہینہ آتا ہے اور ہر سال ہی ’یوم خواتین‘ بھی آتا ہے لیکن یہی عورت 365 دن پستی ہے اور ان سارے دنوں میں کسی کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ ان کے معاشرے کی ترقی کی ضامن عورت کس کرب سے گزر کر، حالات سے لڑ کر، مضبوطی سے اپنے قدم جمائے اپنا عورت ہونے کا حق ادا کر رہی ہے۔
آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر اسلام آباد کے ’عورت مارچ‘ میں جانے کا اتفاق ہوا اور یہ پہلا اور یقیناً ایک منفرد تجربہ تھا۔ گمان تھا کہ پسماندہ علاقوں سے خواتین ان آزادی کی متوالی خواتین کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں گی مگر حالات کچھ الگ ہی داستان سنا رہے تھے۔
کچھ منفرد پلے کارڈز اٹھائے نوجوان لڑکیاں جو شاید جامعات کی طالبات تھیں، سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان میں سے کسی کا تعلق جنوبی پنجاب سے، کسی کا بلوچستان سے تو کوئی کشمیر سے تعلق رکھتی ہے اور یقیناً یہی وہ علاقے ہیں جہاں پر خواتین کی اکثریت وہ زندگی گزارتی ہے، جو ان شرکا کے اٹھائے گئے پلے کارڈز سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔
سوال یہاں یہ نہیں ہے کہ عورت مارچ ہونا چاہیے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ عورت مارچ کن کو اور کس لیے کرنا چاہیے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سال بھر عورت پر تشدد بھی ہوتا ہے، زیادتی کا نشانہ بھی بنتی ہے، وراثت سے محروم بھی ہوتی ہے، جہیز کے نام پر گھر بیٹھی رہ جانے والی بیٹی کا جنازہ بوڑھا باپ خود اپنے کاندھوں پر اٹھاتا ہے، غیرت کے نام پر قتل بھی ہوتی ہے، کم عمری میں شادی جیسے سب سے بڑے ظلم کا نشانہ بھی بنتی ہے لیکن ان کے لیے آواز اٹھانے والے آٹھ مارچ کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی خواتین کو سرعام سڑکوں پر گھسیٹا گیا، بندوقیں تانی گئیں، جیلوں میں ڈالا گیا، عزتیں اچھالی گئیں لیکن تب آٹھ مارچ تھوڑی تھا اور آٹھ مارچ کو پولیس کی نفری آئی اور صرف ڈی چوک جانے سے روکا گیا تو ہر سو صرف یہی سنا کہ ’خواتین پر تشدد ہوا، اسلام آباد پولیس شرم کرو۔‘
یہ شرم تب کہاں تھی جب چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہو رہا تھا؟ اس وقت کوئی خواتین کے لیے آواز اٹھانے والا نہیں تھا۔ روزانہ حوا کی بیٹی عزت گنواتی ہے تو یہ آوازیں خاموش کیوں ہوتی ہیں۔
ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ ’جب عقل بٹ رہی تھی آپ کہاں تھے؟ ’حلوہ‘ کھا رہے تھے۔‘ سوال تو ان سے بھی ہونا چاہیے کہ جب لاہور کے علاقے اچھرہ میں ایک عورت لباس کے نام پر ہراساں ہوئی تو اس کے بعد یہ خواتین کہاں تھیں، آٹھ مارچ کا انتظار کر رہی تھیں؟
جب عورت کو حور، تتلی اور عدت میں نکاح کے طعنے دیے جارہے تھے، وہ تب کہاں تھیں؟ آٹھ مارچ کا انتظار کر رہی تھیں۔ ایک دن کے لیے وردی پہننے سے دھاک نہیں بٹھائی جا سکتی، سالوں کی محنت لگتی ہے۔
نقطہ صرف اتنا ہے کہ عورت سال کے 365 دن زندہ ہوتی ہے، زندگی گزارتی ہے، جیتی ہے، کامیاب بھی ہوتی ہے، ناکام بھی، بہادری بھی دکھاتی ہے اور تشدد کا نشانہ بھی بنتی ہے، اس کے لیے ایک دن سڑکوں پر نکل کر ایسے نعروں اور مطالبوں کو رکھنا، جس سے ایک گھر کو اچھے سے چلانے والی خوش باش عورت اتفاق نہ کرتی ہو، اس کے لیے زندگی مشکل بنانے کے مترادف ہے۔
یا تو ہر عورت کے لیے نکلیں یا پھر ہر گھر کی عورت کو جان کر نکلیں، ورنہ ہر سال کے ایک مخصوص دن کی محنت راتوں رات سپر سٹار نہیں بنا دیتی۔ اس طرح نہ عورت کو وہ سب کچھ مل سکتا ہے، جس کی وہ حقدار ہے اور نہ ہی وہ خود اپنے حقیقی مقام کو پہچان سکتی ہے۔
عورت ہی ہر معاشرے، ملک کی کامیابی کی کنجی ہے اور کسی کو بھی اس کنجی کو غلط استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔