گذشتہ چند سال سے بہت سے لوگ ایک نفسیاتی نظریے پر تبادلہ خیال کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کر رہے ہیں جسے خاندان کی سب سے بڑی بیٹی سنڈروم کہا جاتا ہے۔
یہ خیال ان علامات کے ارد گرد گھومتا ہے کہ خاندان کی پہلوٹھی کو بچپن میں ہی ماں کا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، وہ چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور اسے گھر میں اضافی کام کرنا پڑتا ہے۔
پہلوٹھی بیٹیوں سے اکثر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے مثال قائم کریں، زیادہ ذمہ داریاں سنبھالیں اور رول ماڈل بنیں۔ پہلوٹھی ہونے کی وجہ سے بچی تیزی سے بڑی ہوتی ہے جس کے نفسیاتی اور جسمانی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اگرچہ یہ صورت حال جسمانی کیفیت کے طور پر درج نہیں لیکن ایک نئی تحقیق میں نئے شواہد سامنے آئے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سب سے بڑی بیٹی سنڈروم کا تعلق خاندان میں سب پہلے پیدا ہونے والی خواتین کے ساتھ کیوں ہو سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس، کی سربراہی میں تحقیقی ٹیم نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ سب سے پہلے پیدا ہونے والی بیٹیاں معمول سے پہلے بالغ ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے مطلوبہ نگران کا کردار ادا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتی ہیں۔
محققین کی ٹیم نے خاص طور پر پہلوٹھی کی بیٹیوں میں ایڈرینل گلینڈ کی بلوغت کی قبل از وقت علامات سامنے آنے اور ان کی ماؤں کے دوران حمل بہت زیادہ دباؤ سے گرزنے کے درمیان تعلق دریافت کیا ہے۔
ایڈرینل بلوغت جسمانی تبدیلیوں، مثال کے طور پر جسم پر بال آنا اور مہاسے بننا اور اس کے علاوہ جب لوگ جذباتی پختگی حاصل کرتے ہیں تو اس وقت ذہنی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔ ایڈرینل بلوغت میں روایتی بلوغت کے کچھ پہلو شامل نہیں ہیں جیسے چھاتیوں کا بننا یا ماہواری آنا۔
تحقیق کی شریک مصنفین میں سے ایک اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، مرسیڈ میں نفسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر جینیفر ہان ہولبروک نے کہا کہ جب مشکل وقت ہوتا ہے اور مائیں حمل کے دوران تناؤ کا شکار ہوتی ہیں تو یہ ماں کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے کہ اس کی بیٹی سماجی طور پر تیزی سے پختہ ہو جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’اس طرح ماں کو جلد ہی ’گھونسلے میں مدد گار‘ میسر آجاتی ہے جو بعد میں پیدا ہونے والی اولاد کو مشکل ماحول میں پالنے میں خواتین کی مدد کرتی ہے۔‘
تحقیق میں وضاحت کی گئی کہ لڑکیاں ذہنی طور پر اتنی قابل ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنے بچے پیدا کرنے کے قابل ہوئے بغیر بچوں کی دیکھ بھال اسی طرح کر سکتی ہیں جس طرح والدین کرتے ہیں۔ اس طرح قدرتی طور پر خواتین اپنی بڑی بیٹی کی ذمہ داریوں سے دور ہو جاتی ہے۔
یہ تحقیق جریدے سائیکونیورو اینڈوکرائنولوجی کے فروری کے شمارے میں شائع ہوئی۔ محققین نے اس تحقیق کے نتائج کے حصول میں حمل کے تین ماہ بعد جنوبی کیلی فورنیا میں واقع دو کلینکوں میں معمول کے معائنے کے لیے آنے والی خواتین کو بھی حصہ بنایا۔
نصف خواتین کو پہلی بار حمل ہوا تھا اور وہ سٹیرائڈز، تمباکو، شراب یا تفریح کے لیے دوسری منشیات کا استعمال نہیں کرتیں اور نہ ہی سگریٹ نوشی کرتی تھیں۔
حمل کے دوران ان کی ڈپریشن اوربے چینی کی سطح کو جانچا گیا اور ایک بار جب بچے پیدا ہو گئے تو ان کے ایڈرینل بلوغت کے کچھ پہلوؤں کو بھی دیکھا گیا۔
یہ بات سامنے آئی کہ لڑکیوں کی شکل میں پہلی اولاد سب سے زیادہ تیزی سے بالغ ہوتی ہے جب ان کی ماؤں کو پیدائش سے پہلے زیادہ دباؤ سے گزرنا پڑا۔
ان بڑے بیٹوں یا بیٹیوں کے معاملے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا جو پہلوٹھی کی اولاد نہیں ہوتی۔
ہان ہولبروک کے بقول: ’ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہمیں پہلوٹھی کے بیٹوں میں یہ معاملہ (سنڈروم) نظر نہیں آیا کیوں کہ بچوں کی براہ راست دیکھ بھال میں لڑکے، لڑکیوں کے مقابلے میں اکثر کم مدد گار ثابت ہوتے ہیں اس لیے ماؤں کو ان کی سماجی بلوغت کا عمل تیز کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مزید یہ کہ گذشتہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کی بلوغت کے وقت پر ان کے ابتدائی زندگی کے تجربات زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔
© The Independent