20 لاكھ سے زائد آبادی ركھنے والا كوئٹہ پاكستان كے ان چند تاریخی شہروں میں سے ہے جہاں تقریباً 100 سے 200 سال قدیم عمارتیں اور بازار موجود ہیں۔
کوئٹہ شہر شمال مشرقی بلوچستان میں افغانستان کی سرحد ڈیورنڈ لائن کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور مواصلات کا وقتوں سے مرکز چلا آرہا ہے۔
اسی وجہ سے اس شہر کے کچھ حصوں کے نام افغانستان کے مختلف مقامات کے ناموں پر رکھے گئے ہیں، جن میں سے ایک کوئٹہ کے وسط میں موجود قندھاری بازار بھی ہے، جو افغان صوبہ قندھار کے نام سے منسوب ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برٹش انڈیا کے دور میں قائم ہونے والے اس بازار کی وجہ شہرت اُس وقت افغانستان سے آنے والے مشہور قندھاری انار اور خشک میوہ جات تھے، جو پھر یہاں سے دیگر بڑے شہروں جیسے کہ کراچی، لاہور، پرانا بمبئی اور حتیٰ کہ کلکتہ تک پہنچائے جاتے تھے۔
اس بازار میں اب پھلوں کی دکانیں تو نہیں ہیں، تاہم شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے یہاں مختلف شاپنگ سینٹرز اور دکانیں قائم ہیں، جہاں بلوچی شیشے کا کام، پشتون دستکاری، افغان قالین، فرکوٹ، کڑھائی والی جیکٹیں، واسکٹ اور دیگر روایتی پشتون اشیا فروخت ہوتی ہیں۔
قندھاری بازار کے سرکلر روڈ پر ٹوپیوں کی خاص دکانیں ہیں، جو سندھ کے مختلف شہروں سے یہاں لائی جاتی ہیں اور یہیں سے پھر افغانستان کے صوبہ قندھار، ہلمند اور غزنی تک لے جائی جاتی ہیں۔
300 سے زائد دکانوں پر مشتمل اس مارکیٹ کی کٹ پیس گلی میں زنانہ و مردانہ کپڑے مناسب قیمت پر ملتے ہیں، جس کی وجہ سے ضلعے بھر کے لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
اسی کے ساتھ خشک میوہ جات کے لیے پاکستان بھر میں مشہور کوئٹہ کی بادام گلی بھی ہے، جہاں اب بھی افغانستان سے خشک میوہ جات لائے جاتے ہیں۔
قندھاری بازار کے آخر میں میزان مارکیٹ ہے، جو اب بھی پرانی طرز پر اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ یہاں درزیوں کی مختلف دکانیں ہیں اور دیگر جگہوں کی نسبت یہاں کے ریٹس مناسب ہوتے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ مہنگائی سے کوئٹہ کے شہری بھی شدید متاثر ہوئے ہیں، تاہم دیگر بازاروں کی نسبت قندھاری بازار میں چیزوں کی قیمتیں مناسب ہونے کی وجہ سے کوئٹہ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دوسرے اضلاع سے بھی شہری یہاں آکر عید کی خریداری کرتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔