وقت ضائع کرنے کے جو دو طریقے اس وقت عروج پر ہیں اُن میں سے ایک نیٹ فلکس اور دوسرا یوٹیوب ہیں۔
ویسے تو فیس بک اور انسٹا گرام کی ریلز بھی وقت ضائع کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں لیکن ریلز دیکھتے وقت بندے کو کم از کم ندامت ضرور ہوتی ہے کہ میں کس فضول کام میں ملوث ہوں۔ جب کہ یو ٹیوب اور نیٹ فلکس پر یہ احساس نہیں ہوتا بلکہ اُلٹا بندہ سمجھتا ہے کہ وہ بہت معلوماتی قسم کی فلمیں اور ویڈیوز دیکھ رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک مرتبہ جب آپ اس شیطانی چکر میں پڑ جاتے ہیں تو پھر وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا اور جب پتا چلتا ہے تو کئی گھنٹے گزر چکے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ یوٹیوب نے ہماری دنیا ہی بدل دی ہے۔
وہ گانے، فلمیں، ڈرامے، انٹرویوز اور نایاب قسم کے ویڈیو کلپس جو آج سے 15، 20 سال قبل دنیا کے امیر ترین آدمی کے تصرف میں بھی نہیں ہو سکتے تھے اب ایک ریڑھی والا بھی مفت میں دیکھ سکتا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے یوٹیوب اس لیے پسند ہے کہ یہ مجھے ناسٹلجیا میں مبتلا کر دیتا ہے۔ میں اکثر اس پر پی ٹی وی کے کلاسیکی ڈرامے محض اس لیے دیکھتا ہوں کہ اُس وقت کے پاکستانی شہروں کی فیل (Feel) لے سکوں۔
1980 کی دہائی میں پی ٹی وی اپنے جوبن پر تھا۔ یہ میرے بچپن اور لڑکپن کا زمانہ تھا۔ اس زمانے کی یادیں مجھے آج بھی چین نہیں لینے دیتیں۔
یقیناً ہر شخص ہی اپنے لڑکپن کو یاد کر کے آہیں بھرتا ہے مگر ہمارا تعلق اس نسل ہے، جس نے ٹیکنالوجی کا انقلاب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جب ہم جوان ہو رہے تھے تب گھر میں ایک ہی ٹی وی اور ایک ہی چینل ہوتا تھا جس کا انٹینا ٹھیک کرنے کے بہانے ہم دن سے رات کرتے تھے، جب کہ آج کائنات ہی بدل چکی ہے۔
ہمارے سے پچھلی نسل کے لوگوں نے ٹیکنالوجی کی یہ کایا کلپ نہیں دیکھی، جب کہ موجودہ نسل، جو انٹرنیٹ کی پیدا وار ہے نے وہ دور نہیں دیکھا، جب وی سی آر، ٹیلیفون اور رنگین ٹی وی عیاشی کی معراج سمجھے جاتے تھے۔
یوٹیوب دیکھتے ہوئے جو بات مجھے ماضی کے عشق میں مبتلا کر دیتی ہے وہ پاکستان کے شہروں کی تصویر ہے۔ کس قدر پر سکون شہر تھے ہمارے۔ نہ کوئی شور نہ ٹریفک، نہ نفسا نفسی کا عالم اور نہ لوگوں کا ہجوم۔
آپ یوٹیوب پر ’اندھیرا اجالا‘ لگا کر دیکھیں، لاہور شہر کا اور ہی رنگ روپ نظر آئے گا۔ لبرٹی مارکیٹ کا گول چکر، جہاں اس وقت گاڑیوں کا اژدھام نظر آتا ہے۔ اس زمانے میں ایسا نہیں تھا۔ اکثر لوگ سائیکل پر سواری کرتے نظر آتے تھے اور موٹر گاڑیاں بھی زیادہ نہیں ہوا کرتی تھیں۔
یہ پرانا لاہور دیکھنے کے بہانے میں پی ٹی وی کے کئی ڈرامے بار بار دیکھ چکا ہوں۔ ہر ڈرامہ مجھے اس وقت میں واپس لے جاتا ہے، جب میں ان سڑکوں پر موٹر سائیکل لے کر گھوما کرتا تھا۔ وہ موج، وہ ترنگ، وہ مستی مجھے آج بھی یاد ہے۔
اسی طرح اگر آپ یوٹیوب پر غلام احمد پرویز کے خطبات دیکھیں تو پس منظر میں اُس زمانے کے رکشوں کی آوازیں سنائی دیں گی۔ یہ آوازیں مجھے ماضی میں لے جاتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے میں کسی ٹائم مشین میں بیٹھا ہوں اور اپنے لڑکپن میں پہنچ گیا ہوں۔
پرویز صاحب گلبرگ میں اپنی رہائش گاہ پر یہ خطبے دیا کرتے تھے۔ میں نے یہ جگہ دیکھی ہے۔ اب وہاں اُن کے ادارے طلوع اسلام ٹرست کا دفتر ہے۔
پرویز صاحب کے سامنے ایک مائیک ہوتا تھا، جو آج کل شاید کسی میوزیم میں ہی ملے گا، جب کہ حاضرین کے لیے جو کرسیاں ہوتی تھیں وہ اُس زمانے کے مخصوص ڈیزائن کی ہوا کرتی تھیں، جنہیں دیکھ کر پہچانا تو جا سکتا ہے مگر آج کی نسل کو وہ ڈیزائن سمجھایا نہیں جا سکتا۔
یہ ایسی ہی بات ہے جیسی ایک مزاح نگار نے کہی تھی جس سے پوچھا گیا کہ پنجابی کے لفظ ’چوّل‘ کا کیا مطلب ہے تو اُس نے کہا کہ مطلب تو مجھے نہیں معلوم البتہ میں بندہ دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ چوّل ہے یا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یوٹیوب پر ہاکی اور کرکٹ کے پرانے میچوں کی جھلکیاں بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ ان مقابلوں کی سنسنی خیزی اپنی جگہ مگر میں یہ میچ دیکھ کر تقریباً رو پڑتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ہم پر یہ زوال کیسے آگیا اور کتنی جلدی آگیا کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چل سکا۔
ہاکی اور کرکٹ کے عالمی مقابلے صرف لاہور، کرکٹ اور راولپنڈی میں ہی نہیں بلکہ گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور پشاور میں بھی ہوتے تھے اور یہ کوئی قبل از مسیح کی بات نہیں بلکہ فقط 30، 35 سال پہلے کا قصہ ہے۔
ان شہروں میں دنیا کی ہر ٹیم نے میچ کھیلا ہے جب کہ آج ہمیں یہ بات ناممکن لگتی ہے۔ یوٹیوب پر مشہور انڈین فلم گول مال بھی دستیاب ہے۔
امول پالیکر اور اتپل دت کی یہ فلم بے حد دلچسپ ہے۔ اِس کا ایک منظر مجھے بھلائے نہیں بھولتا، جس میں بھارت اور پاکستان کے مابین ہاکی ٹیسٹ میچ دکھایا گیا ہے۔ اُس منظر میں جب پاکستانی ٹیم میدان کا چکر لگاتی ہے تو بھارتی شائقین کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے ہیں۔ اب کون سی ہاکی اور کون سا ٹیسٹ میچ!
جی ہاں، کھیلوں کے مقابلے اب بھی ہوتے ہیں بلکہ اب تو ان کی کوریج کا معیار ماضی سے کئی گنا بہتر ہو گیا ہے۔ پہلے تو بین الاقوامی نشریاتی رابطہ قائم کرنے میں ہی کئی منٹ لگ جاتے تھے اور جب تک یہ رابطہ قائم نہیں ہوتا تھا اس وقت تک پی ٹی وی پر ایک مخصوص قسم کی موسیقی نشر ہوتی رہتی تھی اور سکرین پر ایک خاص قسم کا نشان موجود رہتا تھا۔
جونہی رابطہ قائم ہوتا تو یکدم سکرین بدل جاتی اور براہ راست میچ نشر ہونا شروع ہوجاتا۔ اُس وقت ہماری خوشی کا عالم یہ ہوتا تھا کہ اگر کوئی ہم سے پوچھتا کہ کیا اس میچ کے بدلے جنت لینی ہے تو ہم انکار کر دیتے۔
یہ تمام باتیں اب قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ اب تو براہ راست میچ یوں دکھایا جاتا ہے جیسے ہم سچ مُچ سٹیڈیم میں بیٹھے ہوں۔ اسی طرح ٹی وی چینل بھی ایک نہیں رہا بلکہ بیسیوں ہیں، جن پر لاتعداد ڈرامے نشر ہوتے ہیں۔
آپ صرف پی ٹی وی دیکھنے پر مجبور نہیں بلکہ کسی بھی چینل پر اپنی پسند کا ڈرامہ دیکھ سکتے ہیں۔ رکشوں کی آوازیں اب بھی سُن سکتے ہیں اور شادیوں اور تقریبات میں کرسیوں اور شامیانوں کے ڈیزائن بھی اپنی پسند کے منتخب کر سکتے ہیں۔
لاہور کی لبرٹی مارکیٹ اور کراچی کی طارق روڈ، بے شک ہمارے زمانے جیسی نہیں رہیں مگر آج کی نوجوان نسل کو پوچھیں تو شاید انہیں ایسی ہی پسند ہوں جیسی اب ہیں۔
اگر سب کچھ پہلے سے بہتر ہے تو پھر ہمارے جیسے دیوانے کیوں بضد ہیں کہ ہم نے 80 یا 90 کی دہائی میں واپس جانا ہے۔ دراصل بات صرف اتنی ہے کہ اُس زمانے میں ہم جوان ہوئے تھے اور پہلی محبت کی تھی۔
یہ اب ممکن نہیں۔ جو نوجوان آج پہلی محبت کر رہے ہیں وہ 30 برس بعد 2024 کو یاد کر کے ایسے ہی آہیں بھریں گے، جیسے آج ہم بھر رہے ہیں۔ ناسٹلجیا کا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔