کوئٹہ کے واحد سٹیڈیم (ایوب سٹیڈیم) میں اس سے قبل صرف کرکٹ اور فٹ بال کے شوقین افراد ہی نظر آتے تھے لیکن اب پنجہ آزمائی اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کرنے والے نوجوان بھی یہاں دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں جو پشتونوں کے روایتی اور قدیم کھیل ’غیژ‘ کے دلدادہ ہیں۔
روایتی کشتی (غیژ) لڑنے والے پہلوانوں کا ماننا ہے کہ یہ کھیل 17 ویں صدی سے چلا آرہا ہے، جس کی ابتدا افغانستان سے ہوئی۔ یہ پشتون قوم کا پسندیدہ کھیل بھی ہے ۔
سلطان پہلوان، کوژک ٹیم کا حصہ ہیں۔ وہ بھی غیژ کے مقابلوں میں شرکت کرنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق ہرعلاقے میں اس کھیل کے الگ الگ اصول ہیں جن میں ہر کھلاڑی کے لیے دوسرے کو دو بار گرانا ضروری ہوتا ہے۔ تیسری بار کھیل کی اجازت نہیں ملتی۔ اس کے بعد نیا جوڑ ڈالا جاتا ہے اور پہلوانوں کا پردہ رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نشہ کرنے والا پہلوان کامیاب نہیں ہو سکتا اس لیے اس کھیل میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ نشہ کرنے والے کھیلنے نہ آئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سلطان کے مطابق یہ کھیل جسمانی اور ذہنی صحت کا ضامن ہے۔ یہ بلوچستان کے پشتونوں اور افغانستان میں یکساں اصولوں کے تحت کھیلا جاتا ہے۔
سلطان محمد کے بقول: ’سندھ میں کھیلا جانے والا ملاکھڑا اور پنجاب میں لڑی جانے والی کشتی اس کی مختلف اقسام ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایک ہاتھ اور دونوں ہاتھ سے کھلاڑی کھیل سکتے ہیں۔ ‘
سلطان محمد کے مطابق اس مقابلے میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں میں افغانستان اور سندھ کے کھلاڑی بھی شامل ہیں، جو یکجہتی اور بھائی چارے کی طرف ایک قدم ہے۔
مقابلے کے منتظمین اس بات سے خوش ہیں کہ انہیں حکومت نے ایوب اسٹیڈیم میں کھیلنے کی اجازت دی، جو آگے جا کر اس کھیل اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گا۔ مقابلے کے منتظم سید نظام آغا کے مطابق ’حالات کی خرابی کے باعث اس کھیل کو نقصان پہنچا لیکن اب ہم باقاعدہ اس کھیل کے مقابلے کرانے کا عزم رکھتے ہیں۔‘
سید نظام آغا نے بتایا: ’جب حالات بہتر تھے تو گلستان، چمن، قلعہ عبداللہ اور کچلاک میں بڑے بڑے میلے منعقد ہوتے تھے جو بدامنی کے واقعات کے باعث بند ہوگئے۔‘
سید نظام آغا کے بقول: ’اب حالات میں بہتری کے باعث اس مقابلے کا انعقاد کیا گیا اور نئے پہلوان بھی سامنے آرہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ یہ میلے جاری رہیں اور لوگوں کی تفریح کا ذریعہ بھی ثابت ہوں۔‘
محکمہ کھیل کے ذمہ داران کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کھیل کو معدومی سے بچانے کے لیے اقدامات کررہے ہیں، جس کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔
غیژ مقابلوں کا انعقاد کرنے والے ڈائریکٹر کھیل درا بلوچ کے مطابق حکومت عوام کے لیے اس کھیل میں سہولیات دینے کے لیے کوشاں ہے۔ ان مقابلوں کا انعقاد اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگ اس کھیل سے محبت کرتے ہیں جس کو بچانے کی ضرورت ہے۔
درا بلوچ کے مطابق آئندہ بھی اس کھیل کے مقابلے ہوں گے جن میں دیگر صوبوں اور افغانستان کے پہلوانوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی۔