رشی کپور سیٹ پر پہنچے تو سبھی ان کا انتظار کر رہے تھے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ ایک گیت کی عکس بندی ہے۔ یہ تخلیق ہدایت کار سبھاش گھئی کی فلم ’قرض‘ تھی۔ پہلی بار رشی کپور، سبھاش گھئی کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کی عکس بندی کا آغاز ہی ایک گیت سے ہونا تھا۔ رشی کپور حسب روایت وقت مقررہ پر سیٹ پر تھے۔ ذہنی طور پر وہ تیار تھے کہ چونکہ گیت ہے تو انہیں رقص کے لیے کس قدر محنت کرنی پڑے گی۔
سبھاش گھئی کی بطور ہدایت کار ’قرض‘ چوتھی فلم تھی۔ اس سے پہلے وہ ’کالی چرن‘، ’وشوناتھ‘ اور ’گوتھم گووندا‘ جیسی ایکشن سے بھرپور ماردھاڑ والی فلمیں بنا کر اپنا سکہ منوا چکے تھے۔
اب ’قرض‘ کی خاص بات یہ تھی کہ یہ میوزیکل رومنٹک فلم تھی جس میں پچھلے جنم کی کہانی کو پیش کیا گیا تھا۔
فلم میں رشی کپور ہیرو تھے جبکہ ہیروئن کے لیے ٹینا منیم کا انتخاب کیا گیا تھا، جن کی اس سے پہلے کوئی قابل ذکر فلم سنیما گھروں میں نہیں سجی تھی۔
’قرض‘ میں راج کرن کے ساتھ ساتھ سیمی اگروال کی بھی کہانی تھی جن کی داستان کو ہی رشی کپور اور ٹینا منیم کے ساتھ آگے بڑھایا گیا تھا۔
رشی کپور نے سبھاش گھئی سے پوچھا کہ جس گیت سے فلم کی عکس بندی کی شروعات ہونے جا رہی ہے اس کا کوریو گرافر کون ہے؟ سبھاش گھئی نے انتہائی پرسکون لہجے میں جواب دیا کہ اس گیت کا کوئی کوریو گرافر نہیں۔
یہ سننا تھا کہ رشی کپور کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔ یہ پہلی بار ہو رہا تھا کہ وہ کسی فلم کا گیت عکس بند کرانے جا رہے ہیں اور ہدایت کار یہ کہہ رہے تھے کہ کوریو گرافر کوئی نہیں۔
رشی کپور نے حیرانی کے ساتھ پوچھا کہ پھر یہ گیت کیسے عکس بند ہوگا؟ ایک مرتبہ پھر سبھاش گھئی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ خود اس گیت کی کوریو گراف کریں گے اور ان کے اشاروں پر ہی سنیماٹوگرافر اس گانے کو عکس بند کریں گے۔
یہ جواب رشی کپور کو عجیب لگا۔ 80 کی دہائی تھی جب رشی کپور، امیتابھ بچن، ونود کھنہ، راجیش کھنہ اور دھرمیندر کی طرح سپر سٹار تھے۔ سب سے بڑی بات تو یہ تھی کہ ان کا تعلق کپور خاندان سے تھا۔ کسی پر بھی دھاک بٹھانے کے لیے یہ تعارف ہی کافی تھا۔
رشی کپور نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بھلا ہدایت کار کیسے کسی گیت کو کوریو گراف کرسکتا ہے؟ سبھاش گھئی کا جواب ملا کہ بس آپ دیکھتے جائیں۔
رشی کپور پھر بھی عکس بندی کے لیے تذبذب کا شکار تھے۔ اب سبھاش گھئی سے ان کی باقاعدہ بحث کا آغاز ہوا۔ ہدایت کار ان کی ہر بات اور اعتراض کو پرسکون اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سن رہے تھے۔
سبھاش گھئی ناصرف فلم کی ہدایت کاری دے رہے تھے بلکہ ’قرض‘ کی کہانی بھی انہی کی لکھی ہوئی تھی۔ جو ہالی وڈ فلم ’دی رین کارنیشن آف پیٹر پراؤڈ‘ سے متاثر تھی جبکہ اس میں مدھو متی، قدرت اور محبوبہ جیسی فلموں کی کہانیوں کا تڑکہ بھی لگایا گیا تھا۔
سبھاش گھئی ان انڈین ہدایت کاروں میں شامل تھے جنہیں موسیقی کی اچھی سمجھ بوجھ تھی۔ اسی لیے جب انہوں نے نغمہ نگار آنند بخشی سے ’قرض‘ کا پہلا گیت لکھوایا تو ان پر واضح کردیا تھا کہ یہ غزل ہوگی جس کی لکشمی کانت پیارے لال کی موسیقار جوڑی ایسی دھن بنائے گی کہ یہ روایتی غزل بھی نہ لگے بلکہ موسیقی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔
یہ بھی اپنی جگہ ایک منفرد داستان ہے کہ جب لکشمی کانت پیارے لال کا سبھاش گھئی نے انتخاب کیا تو اکثر کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ ’قرض‘ میں موسیقی اور وہ بھی ویسٹرن کا رنگ زیادہ غالب رہے گا تو راہول دیو برمن کو موسیقار لیا جائے۔ لیکن یہاں سبھاش گھئی ڈٹ گئے جن کا خیال تھا کہ لکشمی کانت پیارے لال میں یہ خوبی ہے کہ وہ مشرقی اور مغربی موسیقی کا حسین امتزاج گیتوں میں پیش کرسکتے ہیں۔
گیت ’درد دل درد جگر‘ کی دھن بن کر سامنے آئی تو سبھاش گھئی تو جیسے جھوم اٹھے۔ انہیں لگا کہ واقعی لکشمی کانت پیارے لال کو فلم کے لیے منتخب کر کے انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی۔ سونے پر سہاگہ محمد رفیع کی مدھر اور سریلی آواز نے تو جیسے اس گیت میں ان گنت رنگ بھر دیے۔
یہ درحقیقت ماڈرن دور کی غزل ہی تھی جس میں آکسٹرا کا استعمال انتہائی خوبصورتی سے کیا گیا۔ اب اسی گانے کی عکس بندی رشی کپور اور ٹینا منیم کے ساتھ کی جانی تھی۔ سچوئشن کے مطابق فلم کے راک سٹار ہیرو مونٹی کی تقریب میں پہلی بار ہیروئن سے ملاقات ہوتی ہے اور وہ اس کے قیامت خیز حسن اور اداؤں کے ایسے دیوانے ہوتے ہیں کہ وائلن ہاتھ میں لے کر ’درد دل درد جگر دل میں جگایا آپ نے‘ گنگناتے لگتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب صورت حال یہ تھی کہ رشی کپور کسی صورت بغیر کوریو گرافر کے اس گیت کو عکس بند کرانے کو تیار نہیں تھے۔ ایسے میں سبھاش گھئی نے ان سے واضح طور پر کہا کہ وہ اس گیت میں حصہ لیں اور سبھاش گھئی پر اعتبار کریں۔
یقین رکھیں کہ اگر انہیں یہ عکس بند شدہ گیت پسند نہیں آیا تو وہ رشی کپور کی مرضی کے مطابق ہی کسی کوریو گرافر کی نگرانی میں پھر سے عکس بند کریں گے۔ سبھاش گھئی کے لہجے کی پراعتمادی دیکھ کر رشی کپور بھی آخرکار پسپا ہو ہی گئے۔
گانا عکس بند ہوا اور جب اسے رشی کپور نے دیکھا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھے کہ سبھاش گھئی نے تو واقعی کمال کر دکھایا۔ ایک ایک اینگل کو اس کے تمام تر فنی تقاضوں کے مطابق کیمرے میں قید کیا۔ یہی وہ موڑ تھا جب رشی کپور نے اپنے آپ کو سبھاش گھئی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور پوری فلم کی عکس بندی کے دوران وہی کرتے رہے جو سبھاش گھئی چاہتے تھے۔
وجہ صاف تھی کہ وہ جان گئے تھے کہ سبھاش گھئی غیر معمولی ہدایت کار ہیں جو بہترین تخلیقی مہارت بھی رکھتے ہیں۔
اور پھر وہ دن بھی آیا جب 1980 میں فلم ’قرض‘ مکمل ہو کر سنیماؤں میں آئی تو کامیابی اور کامرانی کی نئی داستانیں لکھی گئیں۔ فلم کے ذریعے ٹینا منیم نے بالی وڈ میں قدم جمائے وہیں سبھاش گھئی نے ہر ایک کو یہ باور کروایا کہ وہ رومنٹک فلمیں بھی بنا سکتے ہیں۔
’قرض‘ کی خاص بات یہ رہی کہ اس کا ہر گانا ہٹ ہوا، چاہے وہ ’میری عمر کے نوجوانوں‘ ہو، ’میں سولہ برس کی‘ ہو، یا پھر ’ایک حسینہ تھی‘ ہو۔ یہ بھی ’قرض‘ کے گیتوں کا کمال ہے کہ اس کے مکھڑوں اور انتروں پر بعد میں فلموں کے نام تک رکھے گئے۔ جیسے ’میں سولہ برس کی‘، ’پیسہ یہ پیسہ‘، ’ایک حسینہ تھی‘، ’عاشق بنایا آپ نے‘، اور ’اوم شانتی اوم‘ نمایاں ہیں۔
اگلے برس جب فلم فیئر ایوارڈز ہوئے تو ’قرض‘ نے چھ نامزدگیاں حاصل کیں۔ ان میں ’درد دل درد جگر‘ پر آنند بخشی اور محمد رفیع بھی نامزد ہوئے۔ بہرحال فلم کو اکلوتا ایوارڈ موسیقار لکشمی کانت پیارے لال کی صورت میں ملا۔