جب لاہوریوں کے دل بسنت کے ساتھ دھڑکتے تھے

لاہور میں بسنت کا تہوار تمام تہواروں کا بادشاہ تھا۔ اس کی آمد سے دو ہفتے پہلے اس کی تیاریاں شروع کر دی جاتیں۔ دکانیں سج جاتیں اور ہر طرف رنگ رنگ کی پتنگیں لٹکی نظر آتیں۔

چھ فروری، 2005 کو لاہور میں بسنت میلے کے دوران نوجوان پتنگ بازی کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پنجاب میں 2005 سے بسنت پر پابندی عائد ہے جس کی وجہ دھاتی ڈور سے ہونے والی اموات ہیں۔ وہ تہوار جو کبھی خوشیاں اور رنگینیاں لاتا تھا اب خونی  قرار پا چکا۔

کسی بھی سماج میں تہواروں کی حیثیت اب محض میلے ٹھیلوں کی نہیں رہی بلکہ انہیں ایک بڑی معاشی سرگرمی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کرسمس کا تہوار امریکہ میں ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کی معاشی سرگرمی کا باعث بنتا ہے۔

اسی طرح دیوالی سے ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں 32ارب ڈالر کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ پاکستان میں عید کا تہوار بھی  500 سے ایک کھرب روپے تک کی معاشی سرگرمی کا  باعث بنتا ہے ۔

 بسنت کے تہوار کا  تعلق  مذہب کی بجائے ثقافت سے ہے ۔ اس موقعے پر بھی پتنگ،ڈور ، خصوصی لباسوں اور دعوتوں کی صورت میں اربوں روپے کا سرمایہ حرکت میں آتا ہے ۔لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں ۔

اب ہونا تو یہ چاہیے کہ دھاتی ڈور بنانے والوں کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں ،انہیں سخت سزائیں دی جائیں تاکہ کوئی بھی دھاتی ڈور بنانے اور اسے استعمال کرنے کی جرات نہ کر سکے مگر حکومت نے ایک آسان حل سمجھ لیا کہ بسنت پر پابندی لگا دی جائے ۔

یہ دراصل اس بات کا اعتراف ہے  کہ ہمارانظام انصاف قابل بھروسہ نہیں ۔

رنجیت سنگھ کے دور کی بسنت:

نقوش کا لاہور نمبر  جو1962میں نکالا گیا تھا اس میں بسنت کے میلے کے حوالے سے لکھا گیا کہ یہ میلہ جنوری یا فروری میں لگتا ہے ۔قیام پاکستان سے پہلے یہ میلہ باغبانپورہ میں درگاہ حضرت مادھو لال حسین پر لگا کرتا تھا  ۔

سکھ حضرات گوردوارہ گورو مانگٹ صاحب  اور ہندو حقیقت رائے کی سمادھ پر بسنت مناتے تھے  ۔لال حسین کا ایک شعر ہے کہ

رت آئی بسنت بہار دی

سانوں سک ہے مادھو یار دی

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بسنت سرکاری سطح پر منائی جاتی تھی ۔ایک انگریز لیفٹیننٹ الیگزینڈر برنز جو مہاراجہ کی دعوت  پر لاہور آیا تھا اس نے بسنت کا منظر کشید کرتے ہوئے لکھا :

’بسنت کا تہوار جو بہار کا تہوار ہے، چھ فروری کو بڑی شان و شوکت سے منایا گیا ۔رنجیت سنگھ نے ہمیں اس تقریب میں مدعو کیا اور ہم اس کے ہمراہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر میلہ دیکھنے گئے ۔

’راستے میں مہاراجہ کی فوج کھڑی ہوتی ہے جو مہاراجہ کو سلامی پیش کرتی ہے ۔میلے میں مہاراجہ کاشاہی خیمہ نصب تھا جس پر زرد رنگ کی ریشمی دھاریاں تھیں۔خیمے کے درمیان ایک شامیانہ تھا جس کی مالیت ایک لاکھ روپیہ تھی جس پر موتیوں اور جواہرات کی لڑیاں آویزاں تھیں ۔

’مہاراجہ نے بیٹھ کر پہلے گرنتھ صاحب کا پاٹھ سنا پھر گرنتھی کو تحائف دیے  اور مقدس کتاب کو 10 جزدانوں میں بند کر دیا گیا ۔سب سے اوپر والا جزدان بسنتی مخمل کا تھا ۔اس کے بعد مہاراجہ کی خدمت میں پھل اور پھول پیش کیے گئے۔

بعد ازاں امرا ، وزرا اور افسران آئے جنہوں نے زرد لباس پہن رکھے تھے۔انہوں نے نذریں پیش کیں ۔اس کے بعد طوائفوں کے مجرے ہوئے اور مہاراجہ نے دل کھول کر انہیں انعامات عطا  کیے۔‘

پتنگیں لکھنو کی ، ڈوریں انگلینڈ کی اور پیچے لاہور میں:

پران نیول جو  1922ء میں لاہور میں پیدا ہوئے اور انڈیا کی فارن سروس سے ریٹائر ہوئے ،متعدد کتابوں کی مصنف  ہیں ۔ان  کی ایک کتاب Lahore a Sentimental Journey ہے جو 1993ء میں انڈیا سے چھپی ۔

اس کتاب میں انہوں نے لاہور  سے  متعلق اپنی یاداشتوں کوقلم بند کیا ۔ایک باب’  بوکاٹا‘ کے نام سے ہے جس میں لاہور میں بسنت کے تہوار کا احوال بیان کیا گیا ہے ۔

وہ لکھتے ہیں جب جاڑے کے دن رخصت ہو رہے ہوتے اور لاہور میں موسم بہار کی آمد آمد ہوتی تو فضا  ’بو کاٹا ،بو کاٹا‘ سے گونجتی رہتی ۔  پتنگ بازی کا آغاز تو جاپان سے ہوا لیکن یہ لاہور کب پہنچی اور کیسے پہنچی یہ تو معلوم نہیں لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ تہوار خاص  لاہوریوں کے لیے بنا تھا ۔

لاہور میں پتنگیں تتلیوں کی طرح اڑتی نظر آتی تھیں جن کے الگ الگ نام ہوتے گڈی، گڈا، لکھنئو پتنگ، پرس، طیرا، کپس وغیرہ، بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں لاہور میں پتنگ بنانے کے ماہر موجود تھے جن میں پہلوان ،رتو اور خوشیا بہت مشہور تھے ۔

رتو کی دکان سوتر منڈی کے محلہ موہلیاں میں تھی ۔منحنی شکل و صورت  لیکن اپنے کام کا دھنی ، گاہک کو  پتنگ فروخت کرتے  وقت  اسے اڑانے اور پیچا لگانے کے گر بھی بتایا کرتا  ۔

ان دنوں پتنگ سازی کے لیے  مختلف رنگوں کے کاغذ  انگلینڈ سے آتے تھے ۔رتو ان کاغذو ں پر بانس کے بنے ہوئے تنکے اس ڈھنگ سے لگاتا کہ اس کی بنائی ہوئی پتنگ کبھی دائیں یا بائیں ڈولتی نہیں تھی بلکہ سیدھ میں اڑتی  رہتی تھی  چاہے ہوا کتنی ہی زور آور یا مخالف  کیوں نہ ہو ۔

وہ سارا سال  بسنت کے تہوار کے لیے پتنگیں بناتا تھا مگر پھر بھی تہوار کے دنوں میں مال کم پڑ جاتا ۔پتنگوں کی طرح لاہوری ڈور بنانے میں بھی مشتاق تھے ۔

ڈور تین طرح کے دھاگوں  کی بنی ہوتی  تھی ۔ایک ڈور  میسرز کوٹس انگلینڈکی بنی ہوتی تھی جو سب سے زیادہ استعمال ہوتی تھی  ۔ موٹائی کے حوالے سے ڈوروں کے الگ الگ نمبر ہوتے تھے  جیسا کہ 8,10اور18 نمبر کی ڈوریں استعمال کی جاتی تھیں ۔

سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی ڈور 10 نمبر کی تھی ۔ آٹھ نمبر کی سب سے موٹی ڈور ہوتی تھی جو بڑی پتنگوں کے لیے استعمال ہوتی تھی اور 18 نمبر چھوٹی پتنگوں کے لیے ہوتی تھی ۔

ڈور کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اس پر آٹے اور باریک کوٹے  ہوئے شیشے کا  مکسچر بنا کر لگایا جاتا جس سے  اس کی دھار اتنی تیز ہو جاتی کہ یہ انگلی کو زخمی کر سکتی تھی  جس کو بچانے کے لیے پتنگ اڑاتے وقت دستانے پہننے پڑتےتھے ۔

بعض اوقات ڈور کو تیز بنانے کے لیے ابلے ہوئے انڈے  بھی استعمال کیے جاتے تھے۔ منٹو پارک ، موچی دروازہ اور شاہ عالمی میں  ڈوریں بنانے والے اپنے کام میں مشغول نظر آتے ۔

بہار کے دنوں میں ہم لوگ سکول سے آتے ہی اپنی پتنگ اور ڈور  لے کر چھت پر چڑھ جاتے تھے ۔آلودگی چونکہ تھی نہیں اس لیے چھت سے پورا لاہور نظر آتا تھا ۔

ہم پتگوں کو اتنا اونچا اڑاتے کہ وہ بادلوں تک پہنچ جاتی تھیں ۔لیکن پیچا لڑانے کا عمل سب سے دلچسپ ہوتا تھا ۔پتنگ بازی کے کچھ اصول بھی تھے جن پر عمل کیا جاتا تھا ۔

جب کوئی پتنگ کٹ کر اڑتی تو اسے لوٹنے کے لیے ہر عمر کے لوگ  بانس کے بڑے بڑے ڈنڈے لےکر  گلیوں اور چھتوں پر دوڑتے پھرتے ۔

لاہور کے ہر محلے میں پتنگ بازی کے کچھ ماہر کھلاڑی ہوتے تھے جب وہ پتنگیں اڑانا شروع کرتے تو ہمارے جیسے شوقین لوگ اپنی پتنگیں نیچے اتار لیتے تاکہ میدان میں صرف ماہر کھلاڑی رہ جائیں ۔پتنگ بازی میں ایک  طریقہ’ کھینچا‘کا بھی  ہوتا تھا جس میں  مخالف کی پتنگ کو قابو میں لاتے ہی ایک جھٹکے سے اسے کاٹ دیا جاتا تھا۔

لاہور میں بسنت کا تہوار  تمام تہواروں کا بادشاہ تھا ۔اس کی آمد سے دو ہفتے پہلے ہی اس کی تیاریاں شروع کر دی جاتیں۔ دکانیں سج جاتیں۔ ہر طرف رنگ رنگ کی پتنگیں لٹکی نظر آتیں۔لکھنئو سے بھی وسیع سٹاک منگوالیا جاتا۔

ماہر کھلاڑی پہلے ہی پتنگیں اور ڈوریں خرید لیتے تاکہ انہیں آخری وقت میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

لوہڑی کا تہوار جو  عموماً13 جنوری کو منایا جاتا تھا اس روز بھی ہم پتنگیں اڑاکر بسنت کی مشق کرتے تھے ۔ بسنت فروری کے دوسرے ہفتے میں منائی جاتی تھی جو لاہور میں موسم سرما کے اختتام کا اعلان بھی ہوتا تھا ۔

بسنت سے ایک روز پہلے رات کو  پتنگوں کے ساتھ شمعیں  باندھ کر فضا میں بلند کی جاتی تھیں جس سے لگتا تھا کہ لاہور میں ستارے تیر رہے ہیں ۔ چھت  اور چوبارے بچوں ، مردوں اور عورتوں سے بھر جاتے تھے ۔عورتیں جوان ہوں یا بوڑھی وہ زرد رنگ کے دوپٹے پہنتی تھیں ۔

بسنت کے دن لاہور کا آسمان ہزاروں لاکھوں پتنگوں سے بھر جاتا تھا اور طرف سے بو کاٹا بوکاٹا کی صدائیں بلند ہورہی ہوتی تھیں۔

پتنگ بازی کے مشہور کھلاڑی  سید مٹھا ، وچھو والی ، مچھی حاطہ ، سوتر منڈی اور رنگ محل کے علاقوں میں رہتے  تھے وہ ایک دوسرے کو پیچا لڑانے پر اکساتے تھے ۔

بسنت کےموقعے پر حقیقت رائے کی سمادھی کے علاقے میں قریبی دیہات کے لوگ بھی آ کر پتنگیں اڑاتے تھے ۔اسی طرح منٹوپارک میں شرطیں بھی لگائی جاتی تھیں ۔

حادثے تب بھی ہوتے تھے:

پران نیول اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ’ بسنت کے دن کا ایک خوف ناک حادثہ میری یادوں سے ابھی تک محو نہیں ۔ ہمارے محلے میں شیبا نام کا ایک نوجوان کھلاڑی تھاجومجھ سے کچھ سال بڑا تھا ۔

’وہ اتنا ہنس مکھ تھا کہ چھوٹے بڑوں سب میں مقبول تھا۔پتنگ اڑانے میں ایسا ماہر کہ کئی مقابلے جیت چکا تھا ۔بسنت کا دن تھا جب وہ  سارا دن اپنے مخالفوں پر بھاری پڑنے کی وجہ سے سرشار تھا ۔

 ’شام کے سائے ڈھل رہے تھے جب اسے دوسرے محلے کے   ایک دوسرے کھلاڑی دوارکا نے مقابلے کے لیے اکسایا  ۔ شیبا نے فوراً چیلنج قبول کیا اور اپنی  سرخ رنگ کی پتنگ مقابلے میں اتار دی ۔

’ہم سب نے اپنی اپنی پتنگیں اتار لیں  تاکہ مقابلہ دیکھ سکیں ۔ہم سب اپنے اپنے چھتوں سے شیبا کی حوصلہ افزائی کے لیے  نعرے لگارہے تھے ۔جب   شیبا نے پیچا لگا یا تو دونوں پتنگیں باہم الجھ گئیں ، پتنگ باز اپنے اپنے گر آزمانے لگے ۔

’شیبا کی چھت کی دیوار دو فٹ سے زیادہ بلند نہیں تھی۔ شیبا پیچ لڑاتے لڑاتے دیوار کے کونے تک پہنچ گیا اسی دوران دوارکا کی پتنگ کٹی توشیبا نے جوش میں  بو کاٹا کا نعرہ لگایا لیکن وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور 50فٹ نیچے گلی میں گر گیا جہاں جگہ پر ہی ا س کی موت ہو گئی ۔ سارا محلہ سوگوار ہو گیا اور   پتنگ کے تہوار کی تما م سرگرمیاں منسوخ کر دی گئیں ۔‘

اس سے پتہ چلتا ہے کہ حادثے تب بھی ہوتے تھے لیکن پتنگ بازی جاری رہتی تھی ۔ بالکل اسی طرح جیسے دنیا میں سب سے زیادہ حادثے شراب نوشی کی وجہ سے ہوتے ہیں لیکن شراب نوشی پر  پابندی نہیں لگائی جاتی بلکہ ڈرائیونگ کے لیے شراب نوشی کی ایک حد مقرر کر دی گئی ہے ۔

حد سے زیادہ شراب نوشی کرکے اگر کوئی ڈرائیونگ کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کی  شامت آ جاتی ہے ۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ لاہور میں دھاتی ڈوریں بنانے والے جو کئی زندگیوں کو نگل چکے ہیں ان کی شامت آئی ہو ۔وہ گرفتار ہو بھی جائیں  تو چھوٹ جاتے ہیں ۔

ہمیں اپنے تہواروں پر پابندی نہیں لگانی چاہیے بلکہ ان کو نشان عبرت بنانا چاہیے جو ان خوشی کے ان تہواروں کو ماتم میں بدل دیتے ہیں۔

یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ