میں نے زندگی بھر کتابوں سے عشق کیا۔ ہر شب سرہانے رکھی کتاب کے کرداروں سے خوابوں تک کا سفر کرتے کرتے سورج طلوع ہوتے دیکھے۔ کیمپ میں کتاب کی کمی نے عجیب سی اداسی میں مبتلا کر دیا تھا۔
رامسٹائن ایئر بیس پر مجھے سحر ملی تھی۔ اس کی بڑی بڑی شربتی آنکھیں، سیاہ گھنے بال اور ملیح صورت شناسا سی لگی اور اس کی پشتو بھی جانی پہچانی تھی۔ جب کچھ خواتین نے اس سے پوچھا، ’تم ننگر ہار کی ہو کیا؟‘
اس نے مسکرا کر کہا، ’میں نہیں بتانا چاہتی میں کہاں کی ہوں۔ اگر بتا دیا تو نجانے تمھارے کیا تاثرات ہوں۔ شاید پھر میں تمھیں اتنی اچھی نہ لگوں۔‘
گاؤں کی وہ سادہ خواتین اس جملے کی گہرائی کو نہ سمجھ سکیں مگر میں نے اسے جاتے وقت دروازے پہ روک لیا۔ میں نے اسے پہچان لیا تھا۔ گو کہ ہم زندگی میں پہلی بار مل رہے تھے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے، ہم ایک ہی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔
وہ لکی مروت کی تھی، اس نے پشاور یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تھا اور ٹھیٹ پشاوری پشتو بولتی تھی۔ جرمنی میں ایک این جو او کے ساتھ کام کرتی تھی۔ اس سے ڈھیر ساری باتیں کیں اور پشاور کو جی بھر کر یاد کیا۔ پھر اس نے کہا، ’اچھا بتاؤ تمھیں کس چیز کی ضرورت ہے، کپڑے، دوا، خوراک ؟ جو ہو سکا میں بندوبست کروں گی۔‘
میں نے کہا، ’کپڑے چھوڑو، ہو سکے تو مجھے کتابیں لا دو۔‘
وہ چونکی اور کہا، ’مجھے لگ رہا تھا کچھ ایسا ہی مانگو گی۔‘
ملنا، دوبارہ ملنے کا وعدہ، جدائیاں، سحر مجھے پھر دوبارہ کبھی نہ مل سکی کہ دو دن بعد ہم رامسٹائن سے روب چلے گئے لیکن اس کے بھیجے دو ناول مجھے ایک افغان ترجمان نے لا کر دیے اور کہا سحر کو یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے اور یہ ناول بھی میں بہت مشکل سے لایا ہوں، کیونکہ ایک کیمپ کا سامان دوسرے کیمپ لانے کی اجازت کسی کو نہیں۔
دو انگلش ناول دنوں میں پڑھ کر ختم کیے اور جس رات آخری صفحات پڑھ رہی تھی اسی رات ہمارا نام امریکہ جانے والی فہرست میں آ گیا اور آتے وقت وہ ناول میں نے ایک امریکی دوست میری کو دے دیے کہ شاید میری طرح کتابوں سے عشق کرنے والی یا والے کو ضرورت ہو۔
امریکہ آنے کے بعد جب دل خزاں کے چرمراتے پتوں سے محظوظ ہونے، کابل کو یاد کرنے اور افغان عورتوں کے آنسو صاف کرنے کے بعد بھی بےچین سا رہنے لگا تو مجھے محسوس ہوا مجھے ایک کتاب کی اشد ضرورت ہے۔ فیس بک پہ دوستوں کے نئے پرانے افسانے پڑھے مگر نیٹ اتنا سست رفتار جیسے لوکل بس رک رک کر چلتی ہو۔ کہانی کا تسلسل ختم ہو جاتا اور چند سو لفظوں کا افسانہ بھی قسطوں میں پڑھ کر مزہ نہیں آتا تھا، کاش میرے پاس کتاب ہوتی!
خیال آیا کیوں نہ پوچھ لیا جائے۔ میں میئر سیل گئی۔ وہاں دروازے کے باہر حصار کھینچا ہوا تھا اور حصار کے پاس گن مین کھڑے پہرہ دے رہے تھے۔ میں نے ایک سے کہا، ’مجھے میئر سے کچھ نہیں کہنا، بس ایک کتاب چاہیے، یہ معلوم کروا دو کہ کیا وہ کوئی کتاب منگوا سکتے ہیں؟ فکشن، نان فکشن کچھ بھی بس جنگ کے بارے میں کہانی نہ ہو۔‘
میرین کے اس نوجوان نے وہیں کھڑے کھڑے ایک پتہ لکھ دیا اور کہا، ’یہ سامنے بس پہ بیٹھو اور وہ تمھیں ٹھیک فورٹ پکٹ میں اتارے گی، وہاں عمارت نمبر 2638 میں ایک چائے خانہ ہے اور اس کے ساتھ ایک کتب خانہ ملے گا۔‘
واہ! اندھے کو دو آنکھیں مل جائیں اور کیا چاہیے۔ اگلے دن میں اس عمارت کے سامنے کھڑی تھی۔ ڈائنا بلیک وہاں بچوں کے ساتھ موناپلی کھیل رہی تھی۔ پشتون لڑکے جن کی عمریں دس سے تیرہ سال کی تھیں، اسے ’خالہ تور پوست‘ کہہ کر بلا رہے تھے۔ وہ بیچاری پشتو سے بالکل نابلد انگلش کے ایک ایک لفظ پہ اتنا زور دیتی جیسے ہجے کرنے سے بچوں کو انگریزی سمجھ آ جائے گی۔ لڑکے اشاروں سے سمجھ کر مناپلی سیکھ گئے تھے۔ ایک سر پکڑے اپنے دیوالیہ ہونے کا ماتم ایسے کر رہا تھا جیسے اس کے انگور کے ٹرک طورخم پہ روک دیے گئے ہوں۔
دوسرا نقلی پیسے گن رہا تھا۔ ان کو میرا وہاں رکنا اچھا نہ لگا کہ ڈائنا ان کو چھوڑ کر مجھ سے باتیں کرنے لگی اور بتانے لگی کہ وہ پشتو سے نابلد ہے اسے ایک ترجمان کی اشد ضرورت ہے۔ وہ شریر لڑکوں سے کچھ پریشان تھی۔ کچھ پتنگیں چوری کر گئے تھے اور پورے کیمپ میں ان دو چار پتنگوں کی وجہ سے کافی فساد برپا ہو گیا تھا۔ پتنگیں صرف رنگ کرنے کے لیے تھیں۔
اس نے کہا، ’تمہیں پتہ ہے ان لڑکوں کی قمیص کے اندر بھی جیبیں تھیں اور بغل کے نیچے بھی۔ اگلے دن بہت سے بچے اس کے پاس جمع ہو گئے اور سب پتنگیں مانگنے لگے۔‘
آدھا گھنٹہ اس کا دکھڑا سننے کے بعد میں نے اپنا دکھڑا سنایا اور کتابیں ایشو کروانے کی فرمائش اس کے سامنے رکھ دی۔ کمرے میں بڑے بڑے شیلف تھے جن پہ اچھی خاصی تعداد میں ناول اور کتابیں سجی تھیں۔ کچھ تو ڈبوں میں پیک تھیں جنھیں اب تک کھولا ہی نہیں گیا تھا۔ بچوں کی کتابوں کا الگ سے شیلف پڑا تھا۔ مختلف ملکوں کے بارے میں کتابوں میں ہر ملک کی کتاب ملی سوائے افغانستان کے۔
وہیں پاکستان کے متعلق کتاب پہ فیصل مسجد کی تصویر چھپی تھی، جو میں نے کھڑے کھڑے پڑھ لی۔ پھر ایک کتاب پہ نظر پڑی اسے اٹھایا۔ جیسے جیسے صفحات پلٹنے لگی کتاب نے جکڑ لیا اور اسی میں محو ہوگئی۔ پہلی بار میں کسی طباخ کی لکھی ایسی جامع کتاب پڑھ رہی تھی جو فنِ نانبائی کے متعلق تھی۔ لکھنے والے نے یورپ اور امریکہ کے نانبائیوں سے مل کر روٹیوں کی تراکیب کو نہ صرف لکھا بلکہ ان کی تاریخ اور ان کا پس منظر بھی لکھا۔
وقت ختم ہو گیا اور کتاب مجھے ساتھ لے جانے کی اجازت نہ ملی۔ آخر ڈائنا کا دل پگھل گیا۔ وہ اپنے نام کی طرح بلیک ضرور تھی مگر اس کا دل بہت صاف تھا۔ کہا تم پہ اعتبار کر سکتی ہوں اور میں دوپٹے میں کتاب چھپا کر اپنے کیمپ لے آئی کہ یہ خاص مہربانی صرف میرے لیے تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوئی اور دیکھ لیتا تو کتاب ایشو کروانے کا سلسلہ شروع ہو سکتا تھا جن کا ان کے پاس کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی پتنگ والی داستان کی دوسری قسط میری وجہ سے شروع ہو اور اگلے دن کتابوں کے لیے قطار لگ جائے۔ مگر ڈائنا نے کہا تھا، ’افغان کتابیں نہیں پڑھتے۔‘
میں نے کہا، ’اس وقت سارے افغان خود چلتی پھرتی کتاب بنے ہوئے ہیں، کوئی اور کتاب کیا پڑھیں گے؟‘
مگر سچ اس کے برعکس تھا۔ یہاں کتب خانے کے بجائے وائی فائی لگا دیا جاتا تو ڈائنا کو پتہ چل جاتا کہ بیشتر افغان کتاب کیوں نہیں پڑھتے۔ میں کتاب ساتھ لائی اور ان دنوں اپنے اردگرد ہونے والے مسائل بھول کر خمیری اور پتیری روٹی بنانے کے طریقے سیکھنے لگی۔ دو تین بار دوبارہ کتب خانے صرف اس نیت سے گئی کہ ڈائنا یہ نہ سمجھے کہ خاتون کتاب لے کر غائب ہو گئی۔ میں کتاب آخری صفحے تک پڑھنا چاہتی تھی مجھے کچھ وقت چاہیے تھا۔
اسی دوران ہمارا کیمپ تبدیل ہو گیا۔ میں کتب خانے گئی تو کرونا کی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ میں نے وہ کتاب میئر سیل میں جمع کروا دی تاکہ ڈائنا کا اعتبار قائم رہے۔ افغان قوم نے جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے اس میں ایک اعتبار بھی تھا۔ زبان کو مہر سمجھنے والے ایک دوسرے سے ڈرنے لگے۔ اعتبار جاتا رہا شکوک و شہبات جنم لینے لگے۔ پڑوسی اپنے پڑوسی سے ڈرنے لگا۔ دوست، دوست نہ رہا۔
میں نے سوچا کیا ڈائنا کتاب ملنے کے بعد پتنگ چوری ہونے والے واقعے کو بھول جائے گی؟ دل نے جواب دیا ہرگز نہیں۔ ایسے ہم بھی بہت سی مہربانیوں کے باوجود وہ درد کبھی نہیں بھول سکتے جو ہمیں جنگ اور ہجرت نے دیے۔ صرف خدا کے مہربان ہونے سے کچھ نہیں ہوتا، انسانوں کو بھی اپنے حصے کا کرم دنیا میں رنگ، نسل، مذہب اور قوم کو بالائے طاق رکھ کر برابر برابر تقسیم کرنا چاہیے تاکہ انسانیت کا کھویا ہوا وقار واپس آ سکے۔