بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے ریاست آسام کے لاکھوں لوگوں کی شہریت ختم کرنے کے فیصلے کو ’صدمہ انگیز‘ اور ’شرم ناک‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ افواہیں ہیں کہ دوسری ریاستوں میں بھی ایسا ہونے جا رہا ہے۔
اس فیصلے کا مقصد غیر قانونی تارکینِ وطن کی نشان دہی کرنا تھا، یعنی وہ لوگ جنہیں دائیں بازو کی جماعت بی جے پی نے ’دیمک‘ قرار دے رکھا ہے۔ لیکن اب اقوامِ متحدہ کی تشویش اور اس فیصلے سے منسلک درجنوں خودکشیوں کے بعد بھارت بھر کے سینیئر سیاست دان اس کے ملک گیر نفاذ کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے اختتام پر شہریوں کے اندراج کا قومی رجسٹر (این آر سی) آن لائن شائع کیا گیا۔ اس کا نفاذ صرف اس چائے اُگانے والی ریاست تک رکھا گیا ہے، لیکن اس کی وجہ سے ملک کو ڈیڑھ ارب روپے اور 52 ہزار سرکاری عہدے داروں کا نقصان ہو چکا ہے۔ تاہم اس فیصلے کی پوری انسانی قیمت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ آسام میں 20 لاکھ کے قریب لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ ملک کے شہری نہیں ہیں۔ اگر ان کی اپیل کامیاب نہیں ہوتی تو ان کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہوسکتا ہے اور انہیں حراستی کیمپ میں بھیجا جا سکتا ہے۔
ریاست کی کُل آبادی تین کروڑ 30 لاکھ ہے۔ لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ این آر سی میں داخل ہونے کی درخواست دیں۔ اس مقصد کے لیے انہیں درجنوں ایسی دستاویزات پیش کرنا تھیں کہ وہ یا ان کے بچے 1971 سے قبل ریاست کے شہری تھے۔ آسام کی بنگلہ دیش کے ساتھ 262 کلومیٹر طویل سرحد ہے جہاں سے بہت سے لوگ یہاں کے چائے کے باغوں میں کام کرنے کے لیے آتے رہے ہیں۔
ان نوواردوں پر الزام ہے کہ انہوں نے آسام کی روایات کو نقصان پہنچایا ہے اور اس کی وجہ سے ماضی میں کئی بلوے ہو چکے ہیں۔ 1980 کی دہائی میں ہونے والے ہنگاموں میں دو ہزار سے زیادہ بنگالی، بلوائیوں کا نشانہ بنے تھے لیکن کسی کو سزا نہیں ملی۔ 1983 میں حکومت نے غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کی کوشش کی اور 1951 میں شائع ہونے والے این آر سی کو اَپ ڈیٹ کرنا چاہا، لیکن کام اتنا زیادہ تھا کہ اسے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔
آخر 2013 میں بھارتی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ رجسٹر کی تجدید کی جائے اور 1971 کی حتمی تاریخ مقرر کر دی گئی، جس کے بعد آسام آنے والوں کو غیر ملکی قرار دیا جائے گا۔ یہ وہ تاریخ ہے جب بنگلہ دیش قائم ہوا تھا اور جب بڑی تعداد میں لوگوں نے تشدد سے بچنے کے لیے سرحد عبور کی تھی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ دراصل عدالتی حکم کی آڑ میں اسلاموفوبیا ہے، جس کا مقصد اُن لوگوں کی نشان دہی کرنا ہے جنہیں وزیرِ داخلہ امِت شاہ نے بنگلہ دیشی مسلمان ’غداروں‘ کا لقب دے رکھا ہے۔
اِمت شاہ وزیرِاعظم نریندر مودی کے دستِ راست ہیں اور انہوں نے ہی ان لوگوں کے لیے ’دیمک‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اس کے بعد سے حکومتی ارکان زور لگا رہے ہیں کہ لفظ ’دیمک‘ ہندی میں اتنا اشتعال انگیز نہیں ہے۔
این آر سی کی تکمیل کے عمل کا اعلان 31 اگست کو ہوا جس پر اچھا خاصا بین الاقوامی ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ اس سے قبل پانچ اگست کو حکومت نے کشمیر کی خودمختاری ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بھارتی حکومت دونوں فیصلوں میں تعلق کی تردید کرتی رہی ہے، لیکن یہ دونوں بی جی پی کی زبردست انتخابی کامیابی کے بعد کیے گئے ہیں۔
بی جے پی پر الزام ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے اور ہندو اکثریت کو ترجیح دیتی ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں میں کئی وفاقی اور ریاستی حکام نے این آر سی سے باہر رہنے والوں کے خوف کو کم کرنے کی کوشش میں کہا ہے کہ ان کے پاس اپیل کرنے کے لیے 120 دن ہیں اور اگر وہاں بھی ان کی شنوائی نہیں ہوتی تو وہ اپنا مقدمہ آسام ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ تک لے جا سکتے ہیں۔
لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ طفل تسلیاں ان لوگوں کے لیے بیکار ہیں جن کی بڑی تعداد غریب اور اَن پڑھ ہے اور جنہوں نے گذشتہ آٹھ سال کا بڑا حصہ اس خطرے کے سائے تلے جی کر گزارا ہے کہ انہیں ’غیر ملکی‘ اور ’بنگلہ دیشی‘ قرار دے دیا جائے گا۔
بھارت کی سب سے بڑی انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ’سٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس‘ (سی جے پی) دو برس سے این آر سی کے معاملے پر کام کر رہی ہے۔ اس کے ارکان قبائلی برادریوں کا دورہ کرکے لوگوں کو دستاویزات فراہم کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔ اس تنظیم کا اندازہ ہے کہ دس لاکھ لوگ اپنی شہریت ثابت کرتے کرتے سرخ فیتے میں الجھ کر رہ جائیں گے۔
اسی دوران یہ تنظیم ’این آر سی سے منسلک ہلاکتوں‘ کا ریکارڈ بھی رکھ رہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس ڈر سے خودکشیاں کر رہے ہیں کہ وہ فہرست سے باہر رہ جائیں گے اور ان کے پاس مہنگی قانونی لڑائی لڑنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
سی جے پی کی قومی سیکریٹری ٹیٹسا سٹیلوارڈ نے انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب تک ایسی 65 خودکشیوں کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔
انہوں نے کہا: ’ان لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا، یہ ابھی تک کھلا سوال ہے اور اسی لیے لوگوں میں خوف ہے۔ وہ لوگ جو استاد ہیں یا دوسری سرکاری ملازمتیں کرتے ہیں، انہیں معلوم نہیں کہ ان کی نوکریاں برقرار رہ پائیں گی یا نہیں۔ شہریت سے محرومی اور حراستی کیمپوں کے بارے میں بہت سی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ بات بہت صدمہ انگیز اور شرمناک ہے کہ وہ اس طرح سے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ یہ سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہیے۔‘
اس سیاسی فیصلے کا ایک شکار رحیم علی ہیں۔ پانچ بچوں کے باپ رحیم علی مسلمانوں کے گاؤں بنتی پور میں رہتے تھے۔ ان کی بیوی حلیم النسا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کے بچوں کو فارنر ٹربیونل کے سامنے پیش ہونا تھا، لیکن انہوں نے اس سے ایک دن پہلے خودکشی کرلی کیوں کہ انہیں خطرہ تھا کہ ان کا نام فہرست سے غائب کرکے انہیں حراستی کیمپ میں بھیج دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس مقدمہ لڑنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان کے بچے ان سے چھین لیے جائیں گے۔ وہ بازار گئے، واپس آئے اور یہ کام کر گزرے۔‘
ایک اور خودکشی 31 اگست کو ہوئی۔ جب شمالی آسام کی 60 سالہ سائرہ بیگم تک افواہ پہنچی کہ ان کا نام فہرست میں نہیں ہے تو انہوں نے کنویں میں کود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر ڈالا۔ آسام کے ایک پولیس اہلکار مکیش اگروال نے بتایا: ’انہیں کنویں سے نکال کر ہسپتال لے جایا گیا، لیکن وہ چل بسیں۔‘ ایک گھنٹے بعد جب حتمی فہرست سامنے آئی تو پتہ چلا کہ سائرہ بانو اور ان کے خاوند اور بچوں کے نام اس میں موجود ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ اس عمل میں شفافیت لائی جائے اور آسام کے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے کمشنر برائے تارکینِ وطن فلیپو گرینڈی نے اس ماہ ایک بیان میں کہا کہ یہ یقینی بنانا بھارت کا فرض ہے کہ فہرست میں عدم شمولیت سے کوئی شخص ’بےملک‘ نہ قرار دیا جائے، اور ’یہ یقینی بنایا جائے کہ انہیں اعلیٰ ترین معیار کی معلومات، قانونی امداد اور قانونی چارہ جوئی تک رسائی ہو۔‘
انہوں نے کہا: ’کوئی بھی عمل جو بڑی تعداد میں لوگوں کو شہریت سے محروم کر رہا ہے، وہ بے ملکی ختم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کے لیے سخت دھچکہ ہوگا۔‘
حیرت انگیز طور پر اس فیصلے سے انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ وہ لوگ بھی خوش نہیں ہیں جو 1980 سے این آر سی کی تجدید کے لیے زور لگا رہے تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے مطابق این آر سی سے باہر 19 لاکھ لوگوں میں نصف مسلمان اور نصف ہندو ہیں۔
اس کے علاوہ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ خاوند اور کچھ بچے تو فہرست میں شامل ہیں، لیکن بیوی اور دوسرے بچے باہر ہیں۔
اس کے علاوہ ایسی مثالیں بھی ہیں کہ آسام کے چند نمایاں اور تاریخی خاندان بھی فہرست میں جگہ پانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان میں ساجد علی احمد بھی شامل ہیں، جو بھارت کے پانچویں صدر فخرالدین علی احمد کے قریبی رشتے دار ہیں۔ 25 سالہ ساجد علی نے بتایا کہ ان کا اور ان کے خاندان کا نام اس لیے شامل نہیں کیا گیا کہ ان کے دادا اور بھارتی صدر کے بھائی کے نام کے ہجے غلط تھے۔ ’ہم قانونی موشگافیوں میں گِھر کر رہ گئے اور ہمارا نام شامل نہیں ہو سکا۔‘
ریاست میں بے جے پی کے رہنما رنجیت داس خود کو اس عمل سے لاتعلق قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’این آر سی موجودہ شکل میں شہریوں کی اغلاط سے پاک فہرست نہیں قرار دی جا سکتی۔‘
حتیٰ کہ آل آسام سٹوڈنٹس یونین بھی ان نتائج پر تنقید کر رہی ہے۔ اس تنظیم نے 1980 کی دہائی میں تارکینِ وطن کے خلاف مہم چلائی تھی۔ تنظیم کے سربراہ سموجل بھٹاچاریہ نے بھی کہا کہ این آر سی غلطیوں سے پاک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں کے نام خارج کر دیے گئے ہیں اور بہت سے غیر ملکیوں کے نام اس میں درج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم اس کے خلاف سپریم کورٹ میں جائے گی تاکہ ’آسام کو غیر ملکیوں سے پاک کیا جا سکے۔‘
لیکن ان تمام معاملات کے باوجود پریشان کن بات یہ ہے کہ دوسری ریاستوں میں بے جی پی کے رہنما آسام کی طرز پر شہریوں کی فہرستیں تیار کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
اتر پردیش میں بے جے پی کے شعلہ بیان وزیرِاعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کا اصرار ہے کہ آسام میں این آر سی کا نفاذ ’اہم اور دلیرانہ فیصلہ‘ ہے۔
اترپردیش کی نیپال کے ساتھ طویل سرحد ہے اور ادتیہ ناتھ کا کہنا ہے کہ آسام ہمارے لیے مثال ثابت ہو سکتا ہے ۔۔۔ جب ہمیں این آر سی کی ضرورت پڑی تو ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ یہ فہرست ’غریب لوگوں کے حقوق پر غیر ملکیوں کی جانب سے ڈالا جانے والا ڈاکہ ختم کر دے گی۔‘ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کون لوگ ہیں۔
اس کے علاوہ ہریانہ کے وزیرِاعلیٰ منوہر لال کھٹر نے بھی کہا ہے کہ وہ آسام کے خطوط پر این آر سی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ریٹائرڈ جج جسٹس ایچ ایس بھلا جلد ہی آسام کا دورہ کرکے سفارشات حاصل کریں گے کہ یہ کام کس طرح کیا جائے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ این آر سی کو دوسری ریاستوں تک پھیلانا بی جے پی کی پالیسی نہیں ہے۔ حکام کے مطابق اس بارے میں اِمت شاہ کے وعدے انتخابی بیانات تھے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ جو لوگ فہرست سے باہر رہ گئے ہیں ان کا کیا ہوگا۔
فی الحال ان لوگوں کو فوری طور پر بنگلہ دیش بھیجنے کے امکانات نہیں ہیں۔ خارجہ امور کے وزیر ایس جے شنکر نے حال ہی میں ڈھاکہ کے دورے کے دوران اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ این آر سی انڈیا کا ’اندرونی معاملہ‘ ہے۔
آسام میں تقریباً ایک ہزار غیر قانونی تارکینِ وطن مقیم ہیں، جنہیں این آر سی کے علاوہ ایک اور ادارے فارنرز ٹربیونل نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ ان لوگوں کو چھ کیمپوں میں رکھا گیا ہے اور ساتواں کیمپ تعمیر کیا جا رہا ہے جس میں تین ہزار لوگوں کی گنجائش ہے۔ اس کیمپ سے آنے والی تصاویر اور رپورٹوں سے لوگوں کے خدشوں کو ہوا مل رہی ہے۔ مقامی میڈیا کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ حکام اس طرح کی دس مزید عمارتیں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس کے باوجود ان میں سب لوگوں کی جگہ نہیں ہو گی جو این آر سی سے باہر ہیں۔ حکومت کا موقف یہ ہے کہ جو لوگ فہرست سے باہر ہیں انہیں کسی لحاظ سے بھی حقوق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
تاہم بعض اوقات حکام نے حال ہی میں دلی میں ایک پریس بریفنگ میں تسلیم کیا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ لوگوں کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ’جب تک تمام قانونی ذرائع ختم نہ ہو جائیں، انہیں کچھ نہیں ہوگا۔‘
ایک سرکاری عہدے دار نے کہا کہ ’ابھی تک کسی نے فیصلہ نہیں کیا۔ دنیا میں ہر جگہ حراستی کیمپ ہوتے ہیں۔ یہ امکان ہے کہ لوگوں کو حراست میں رکھا جائے۔۔۔ ہر چیز ممکن ہے۔‘
ایک حالیہ بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے این آر سی کے عمل کو من مانا قرار دے کر اس کی مذمت کی، جس سے دسیوں لاکھ لوگوں پر ’زبردست جذباتی اور نفسیاتی دباؤ‘ پڑا ہے اور اس کا کوئی واضح مقصد نہیں ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کا فرض ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے تاکہ ’من مانے اور متعصبانہ عمل کا نشانہ بننے والوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ جن لوگوں کی زندگیاں چلی گئی ہیں، وہ کبھی واپس نہیں آئیں گی، تاہم اب بھی دیر نہیں ہوئی کہ اس عمل کو واپس لے لیا جائے۔‘
© The Independent