گلگت بلتستان کی سیاسی و سماجی جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس نے سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ مسترد کرتے ہوئے 'متنازع علاقے کے حقوق کے لیے جدوجہد تیز' کرنے کا اعلان کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے 17 جنوری 2019 کے فیصلے میں لکھا تھا کہ گلگت بلتستان کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی اور علاقے کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے کی جائے گی اور جب تک استصواب رائے نہیں ہو جاتا تب تک حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو حقوق دینے کی پابند ہے۔
اسی فیصلے کی روشنی میں 21 جنوری 2019 کو آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں گلگت بلتستان کی سیاسی اور سماجی جماعتوں نے متفقہ طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بنیادی حقوق کے حصول کے لیے تحریک تیز کریں۔
گلگت بلتستان کی آئینی پوزیشن پر پچھلے سال سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا۔ سپریم کورٹ میں میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور بنیادی حقوق کے حوالے سے بڑی تعداد میں درخواستیں جمع کرائی گئی تھیں۔
آئے نظر ڈالتے ہیں اس 71 سالہ تنازعے پرکہ گلگت بلتستان کا مسئلہ ہے کیا، وہاں کے لوگوں کے کیا مطالبات ہیں اور حکومت پاکستان کا اس پر کیا موقف ہے۔
گلگت بلتستان مسئلہ کیا ہے؟
اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیر، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان متنازع علاقے ہیں۔ 1948 میں موجودہ گلگت بلتستان نے ڈوگرہ راج کے خاتمے کے بعد پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ مگر حکومت پاکستان نے کشمیر مسئلے کے پیشِ نظر گلگت بلتستان کو کشمیر مسئلے کے ساتھ نتھی کر دیا جس کی وجہ سے آج تک گلگت بلتستان کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔
سنہ 1947 سے لے کر 1975 تک گلگت بلتستان میں انگریز کے بنائے ہوئے قانون کے تسلسل کیلئے بنائے گئے فرنٹئیر کرائم ریگولیشن نافذ تھا۔ سنہ 1949 میں کراچی معاہدے کے تحت آزاد کشمیر حکومت اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے تحت گلگت کے امور حکومت پاکستان کے زیر انتظام ہوں گے۔ معاہدے میں گلگت بلتستان کی ترجمانی شامل نہیں تھی اور اسی معاہدے کی وجہ سے پاکستان نے گلگت مسئلے کوکشمیر کے مسئلے کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔
1975 میں جاگیرداری نظام اور ایف سی آر کا خاتمہ کر کے دیوانی و فوجداری قوانین کا اطلاق شمالی علاقہ جات پر کر دیا گیا۔
1999 میں سپریم کورٹ نے الجہاد ٹرسٹ کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ یہ نہیں بتا سکتی کہ علاقے میں کس قسم کا انتظامی ڈھانچہ ہو اور نہ ہی پارلیمان کو حکم دے سکتی ہے کہ علاقے کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں جگہ دی جائے کیونکہ اس سے پاکستان کے کشمیر پر موقف کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان کو بھی حکم جاری کیا کہ علاقے کے آئین پاکستان میں درج بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے جائے۔ اسی سال شمالی علاقہ جات قانون ساز کونسل قیام عمل میں آئی جس کے پاس 49 مختلف شعبوں میں قانون سازی کا اختیار دیا گیا۔
سنہ 2009 میں پاکستان کی پارلیمان نے قانون سازی کے تحت گلگت بلتستان کو اندرونی معاملات پر انتظامی اختیارات جاری کیے۔ سپریم کورٹ کے 17 جنوری 2019 کے فیصلے کے مطابق یہ اختیارات بھی ناکافی ہیں۔
اگست 2015 میں گلگت بلتستان اسمبلی نے قرارداد پاس کی کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ قرار دیا جائے۔ اسی سال حکومت پاکستان نے بھی اس وقت کو مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کی زیر قیادت علاقے میں انتظامی اصلاحات کے لیے کمیٹی بنائی۔ کمیٹی نے مارچ 2017 میں رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ علاقے کو خصوصی درجہ دیا جائے جس سے پاکستان کے کشمیر کے موقف پر کوئی فرق نہ پڑے۔ مزید سفارشات میں علاقے کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں جگہ دینے کا بھی کہا گیا مگر ابھی تک اس رپورٹ پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
سپریم کورٹ کا 17 جنوری 2019 کا فیصلہ:
فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا دائرہ اختیار گلگت بلتستان تک بڑھانے کا کہا گیا۔ مزید یہ بھی کہا گیا کہ 1973 کے آئین پاکستان میں کوئی بھی ترمیم اور تبدیلی قانون سازی کے بغیر ممکن نہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ حیثیت میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی اور علاقے کی آئینی حیثیت استصواب رائے سے طے کی جائے گی اور جب تک استصواب رائے نہیں ہو جاتا تب تک حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو حقوق دینے کی پابند ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی وجہ سے گلگت بلتستان کا علاقہ ابھی بھی صدارتی فرمان کے ذریعے ہی چلایا جائے گا۔
آل پارٹیز کانفرنس اور حکومت کی جانے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد:
آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق گلگت بلتستان کے حقوق کے حوالے سے مشترکہ تحریک چلائی جائے گی اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا جائے گا کہ علاقے کو لوگوں کو بنیادی حقوق فی الفور فراہم کیے جائیں۔ اعلامیہ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ 'گلگت بلتستان میں مقامی انتظامیہ کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں تین ریاستی امور کے علاوہ تمام اختیارت گلگت بلتستان کی منتخب اسمبلی کے سپرد کیے جائیں۔'
اس کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی حکومت نے بھی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف اپیل کا فیصلہ کیا ہے۔