بلاوجہ روتی ہوں، سو نہیں سکتی: طالبان کے خوف سے روپوش جج

جب طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد ہزاروں قیدیوں کو رہا کیا تو جج عافیہ روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئیں۔

26 فروری، 2024 کو صوبہ بدخشاں کے ضلع بہارک میں ایک بازار میں ایک افغان برقع پوش خاتون سڑک پر چلتے ہوئے۔ پس منظر میں طالبان سکیورٹی اہلکار پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

عافیہ (حفاظت کی خاطر نام تبدیل کر دیا گیا ہے)  شدید سردرد سے لڑ رہی ہیں اور ان کے دانت گر رہے ہیں، ممکنہ طور پر تناؤ کی وجہ سے۔ لیکن وہ ڈینٹسٹ یا ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتیں کیونکہ وہ روپوش ہیں اور مسلسل اس خوف میں رہ رہی ہیں کہ طالبان ان کا سراغ لگا کر اور انہیں قتل کر دیں گے۔

انہوں نے افغانستان میں اپنے خفیہ ٹھکانے سے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’میں بہت غصے میں ہوں۔ میں بلاوجہ روتی ہوں، میں خوف اور تناؤ کی وجہ سے سو نہیں سکتی۔‘

اگست 2021 میں کابل کی حکومت گرنے کے بعد جب طالبان نے ملک پر قبضہ کر لیا تو 48 سالہ جج کی زندگی الٹ گئی۔

 طالبان نے ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا تھا اور عافیہ جیسے ججوں کو خوف تھا کہ انہوں نے جن مجرموں کو جیل بھیجا ہے، جن میں دہشت گرد اور القاعدہ کے سینیئر کارکن شامل ہیں، وہ ان کا سراغ لگا لیں گے اور بدلہ لینے کی کوشش کریں گے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ عافیہ کی صورت حال انوکھی نہیں ہے۔ افغانستان میں فیملی کورٹ کی سابق جج مرضیہ بابکرخیل، جو اب برطانیہ میں رہتی ہیں، کہتی ہیں کہ طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے اب تک 180 سے زیادہ جج افغانستان سے برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک کی جانب فرار ہو چکے ہیں۔

 مزید 11 خواتین ججوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان فرار ہو گئی ہیں، جہاں سے دوسرے ممالک کے لیے سیاسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کرنا آسان ہو سکتا ہے۔

لیکن عافیہ ان 40 سے زائد خواتین ججوں میں سے ایک ہیں جو طالبان کی بنیاد پرست حکومت سے نکلنے میں ناکام رہی ہیں اور اب بھی روپوش ہیں۔

 بابکرخیل نے خبردار کیا کہ ان کی صحت خراب ہو رہی ہے کیوں کہ وہ خوراک، پیسے یا صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

عافیہ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ ہر چند دن بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ منتقل ہونے پر مجبور ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ محفوظ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ کہتی ہیں کہ ’تناؤ کی وجہ سے میرے دانت گر رہے ہیں۔ میں ڈاکٹر یا ڈینٹسٹ کے پاس نہیں جا سکتی کیونکہ مجھے طالبان سے خطرہ ہو گا۔ بہت سے ججوں کے دانت گر چکے ہیں۔‘

عافیہ نے 14 سال فوجداری اور سول عدالت میں کام کرتے ہوئے گزارے، خاندانی مسائل، شہری حقوق، وراثت کے حقوق اور معاوضے میں مہارت حاصل کی۔

 انہوں نے حکومت کی افغان شہریوں کی آبادکاری سکیم (اے سی آر ایس) کے تحت برطانیہ آنے کی درخواست دی تھی، لیکن گذشتہ سال ان کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔

اے سی آر ایس، جو جنوری 2022 میں شروع ہوئی تھی، کا مقصد پہلے سال میں پانچ  اور پانچ سالوں میں 20 ہزار تک افغانوں کو دوبارہ آباد کرنا تھا۔

 یہ خواتین اور لڑکیوں جیسے کمزور لوگوں اور ان افراد کی مدد کے لیے تیار کی گئی تھی جنہوں نے ’افغانستان میں برطانیہ کی کوششوں میں مدد کی اور برطانوی اقدار کے لیے کھڑے ہوئے۔‘

اس سکیم کے تحت دیگر خواتین ججوں کو برطانیہ میں پناہ دی گئی ہے۔

عافیہ یاد کرتی ہیں کہ جب طالبان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو وہ حالت اضطراب میں مبتلا ہو گئی تھیں۔

عافیہ کا مزید کہنا تھا کہ ’تمام جج ڈرے ہوئے تھے۔ یہ انتہائی پریشان کن تھا۔ مستقبل کے بارے میں خوف تھا۔ جب طالبان کابل آئے تو میں کام پر تھی۔ ہمیں اطلاع دی گئی اور ہم سب اپنے دفاتر سے بھاگ گئے۔ ہم نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اپنی فائلیں دفتروں میں چھوڑ دیں۔

انہیں یاد ہے کہ وہ اپنے دفتر سے سیدھے اپنے رشتہ دار کے گھر کی طرف بھاگی تھیں کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ اگر وہ اپنے گھر گئیں تو خطرے میں پڑ جائیں گی۔

عافیہ نے مزید کہا کہ ’طالبان نے گھروں کی تلاشی لینا شروع کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ میں اور میرے ساتھیوں نے اپنی مستقل رہائش چھوڑ دی ہے اور ہم مختصر مدت کے لیے کہیں اور رہتے ہیں – تقریبا ہر 10 دنوں میں ہم نقل مکانی کرتے ہیں۔ میں مستقل جگہ پر محفوظ نہیں ہوں۔ ہم اپنے آپ کو یا اپنے بچوں کو یا اپنے شوہروں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔‘

عافیہ، جن کے کئی بچے ہیں، کہتی ہیں کہ اگر پڑوسی انہیں مطلع کریں کہ طالبان انہیں تلاش کر رہے ہیں تو وہ اور دیگر جج فوری طور پر دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ہفتہ پہلے مجھے میری دوست نے بتایا تھا کہ طالبان ان کے گھر کی تلاشی لینے آئیں گے، اس لیے انھوں نے کہا کہ ’براہ مہربانی چلے جائیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’میں اپنے بچوں کو لے کر بہت ٹھنڈے کمرے میں رہنے کے لیے چلی گئی۔ برف باری ہو رہی تھی اور میرے پاس اپنے بچوں کے لیے کپڑے ناکافی تھے اور ابھی بھی، سب سے چھوٹا، جو پانچ سال کا ہے، بہت بیمار ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک سال قبل انہوں نے امریکہ میں سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی لیکن اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

امریکی اور برطانوی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے خواتین کو دفتروں، تعلیم اور عوامی مقامات سے روک دیا ہے، انہیں تمام کھیلوں میں حصہ لینے سے روک دیا ہے اور اکیلے سفر کرنے کا حق بھی ختم کر دیا ہے۔

ابھی کچھ دن پہلے، طالبان نے اعلان کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہونے والی خواتین کو سرعام سنگسار کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کریں گے۔

بابکرخیل افغانستان میں خواتین ججوں کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’وہ ہر چند دن بعد نقل مکانی کرتی ہیں۔ آپ نے لوگوں کو جیل بھیجا ہے اور اب ان لوگوں کے پاس طاقت ہے... یقینا، آپ کو ڈر لگتا ہے۔ دشمن اب اقتدار میں ہے۔ جیسے جیسے ان کے افغانستان میں دن بڑھتے جاتے ہیں، ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کچھ ججوں کی زندگیاں برباد ہو چکی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ رمضان میں روزے رکھنے کے دوران طالبان سے چھپ کر ایک گھر سے دوسرے گھر جانا خاص طور پر مشکل ہے۔

بابکرخیل کہتی ہیں کہ ’کچھ ججوں کا کہنا ہے کہ رمضان میں ان کے پاس اتنا نہیں ہے کہ وہ اپنا روزہ کھول سکیں۔

جب میں یہاں اپنا روزہ کھولتی اور کھانا کھاتی ہوں، تو میں ان کے بارے میں سوچتی ہوں اور یہ کہ وہ کس طرح گزارا کر رہی ہیں۔ ان کے پاس تین سال سے کوئی آمدن نہیں ہے۔‘

دی انڈیپینڈنٹ نے تبصرہ کے لیے ہوم آفس سے رابطہ کر رکھا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر