رواں ہفتے پاکستانی فضائیہ کے طیاروں کے افغانستان کے اندر فضائی حملوں نے پورے خطے میں گہری تشویش اور اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ مشرقی صوبوں خوست اور پکتیکا پر حملوں سے قبل دو طرفہ تعلقات کشیدہ تھے لیکن اب دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات میں نئی جہت کا اضافہ ہوا ہے۔
فضائی حملوں کا اہداف مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے محفوظ ٹھکانے تھے، جو ایک عسکریت پسند تنظیم ہے جس پر پاکستان کے اندر متعدد حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی صرف رضاکاروں کے ساتھ کام کر رہی ہے اور اپنے بہت سے کمانڈروں سے محروم ہو چکی ہے لیکن کم ہوتے انسانی اور مادی وسائل کے باوجود اس میں اب بھی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔
افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ان کا ٹی ٹی پی کے حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر کسی بھی تنظیم کو اپنی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف حملے کرنے کی اجازت یا حوصلہ افزائی نہیں کریں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ دو سال پہلے ان کے اقتدار میں آنے کے بعد بعد پولیس اور فوج کا نظام بکھر گیا۔ طالبان کے رضاکار، جو غیر تربیت یافتہ اور ناقص ہتھیاروں سے لیس ہیں، اب پہاڑی سرحد کی حفاظت کر رہے ہیں۔
لیکن اسلام آباد میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں اس طرح کے حملوں کی روک تھام کے لیے افغان طالبان کی صفوں میں خاطر خواہ توجہ یا تشویش نہیں پائی جاتی، تاہم یہ مسئلہ تعمیری بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا تھا۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کیوں کہ گذشتہ دو برس کے دوران پاکستان میں سیاسی عدم استحکام رہا ہے اور حکومتوں نے علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات پر بہت کم توجہ دی ہے۔ رابطے کے فقدان نے کابل اور اسلام آباد دونوں کے درمیان گہرے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر اعلیٰ پالیسی سازوں کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت تھی لیکن اسے بار بار نظر انداز کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ہفتے ہونے والے حملوں سے فریقین میں عدم اعتماد مزید گہرا ہو جائے گا۔ کابل پہلے ہی وسطی ایشیا کے ممالک اور خاص طور پر ایران اور انڈیا کے ساتھ تعلقات استوار کرکے استحکام اور ترقی کے لیے ایک نیا سٹریٹجک راستہ بنا رہا ہے۔ تہران کے ساتھ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور تجارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں انڈیا کے ایک وفد نے کابل کا دورہ کیا اور طالبان کے ساتھ ان متعدد منصوبوں اور شعبوں پر بات چیت کی جن میں انڈیا شامل ہوسکتا ہے۔ افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے وسطی ایشیا تک رسائی دہلی کے لیے ایک پرکشش خیال ہے۔
افغانستان کی اضافی دلچسپی یہ ہے کہ اس کے پاس مبینہ طور پر ڈیڑھ کھرب ڈالر سے زیادہ مالیت کی معدنیات موجود ہیں۔ ان میں تیل، گیس، لیتھیم، کوئلہ اور سونے جیسی قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔ انڈیا اپنی افرادی قوت اور ٹیکنالوجی کے ساتھ اس طرح کی پوشیدہ دولت کی تلاش اور اس سے فائدہ اٹھانے میں بڑی مدد فراہم کرسکتا ہے۔
واضح طور پر پاکستان میں قومی مفاد کے اہم شعبوں میں پالیسیاں مرتب کرنے میں سوچ کا فقدان ہے۔ قلیل مدتی اقدامات پر زور دیا جاتا ہے اور ایسے اقدامات کی قیمت پر کوئی غور نہیں کیا جاتا ہے۔ فضائی حملوں کے بعد مزید افغان پناہ گزینوں کو افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے مقیم تقریباً آٹھ لاکھ پناہ گزینوں کو گذشتہ چند ماہ کے دوران زبردستی افغانستان بھیج دیا گیا جس سے ملک میں شور مچ گیا۔ واپس بھیجے گئے افغان شہریوں میں سے زیادہ تر نے اپنے اصلی ملک کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اب ایک نئے آپریشن کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں مزید لاکھوں پناہ گزینوں کو زبردستی بے دخل کیا جائے گا۔ یہ تازہ نقل مکانی ایک ایسے ملک کے لیے خطرے کا باعث بنے گی جو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہے اور جہاں غربت لاکھوں افراد کو دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کر رہی ہے۔ ایسے ملک پر نقل مکانی کرنے والے مزید خاندانوں کی دیکھ بھال اور انہیں پناہ، خوراک، پانی اور ادویات فراہم کرنے کا بوجھ ڈالنا ایک ایسی حکومت کے لیے مشکل کام ہے، جس کے پاس وسائل کی کمی ہے اور غیر ملکی امداد نہیں ملتی۔
ایک ایسا مرحلہ آ گیا ہے جہاں فیصلے کی مزید غلطی افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو مستقل طور پر تباہ کر سکتی ہے اور ان کی بحالی کی امید بہت کم ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کیا جائے اور ایک اہم ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
اگر افغانستان کو انڈیا سے مدد لینے پر مجبور کیا گیا اور انڈیا کی شمولیت سے تجارتی اور دیگر منصوبے شروع کیے گئے تو اس سے اسلام آباد میں گہری بے چینی پیدا ہوگی، لیکن کابل کو اس طرح کے اقدام کی طرف دھکیلنے کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوگی جنہوں نے پاکستان میں دو طرفہ پالیسیاں بنانے میں بہت کم دوراندیشی کا مظاہرہ کیا۔
رستم شاہ مہمند افغانستان اور وسطی ایشیائی امور کے ماہر ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ایک دہائی تک پناہ گزینوں کے لیے چیف کمشنر کے عہدے پر فائز رہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔