حالیہ دنوں میں پاکستانی میڈیا پر ایک خبر تواتر کے ساتھ چلی ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی نجکاری کے اگلے مرحلے میں پاکستان کے نجکاری کمیشن بورڈ نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے اہلیت کے معیار کی منظوری دے دی اور کم سے کم بولی کی مالیت دس کروڑ ڈالر رکھی ہے جو پاکستانی کرنسی میں ان دنوں 30 ارب کے لگ بھگ بنتی ہے۔
لیکن جتنی تیزی سے یہ سارا عمل شروع ہوا تھا اب اس سارے عمل میں اتنی سرگرمی نہیں رہی اور لگتا ہے کہ ریس میں سب سے زیادہ رفتار سے دوڑنے والا گھوڑا شاید اب اتنی دلچسپی نہیں دکھا رہا یا شاید اسے مزید مراعات کی جستجو ہے۔
اس کے علاوہ پاکستانی میڈیا میں ذرائع سے مختلف خبریں چلائی جا رہی ہیں جن میں سے اکثر درست نہیں ہیں۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے مالیاتی ریکارڈز کھول کر رکھ دیے ہیں تاکہ دلچسپی رکھنے والی پارٹیاں اپنے طور پر فیصلہ کر سکیں کہ وہ کتنی بولی لگانا چاہتے ہیں اور وہ ایئرلائن کو کس حالت میں حاصل کریں گے اور ان کے ہاتھ کیا لگے گا۔
ان حالات میں 30 ارب یا 35 ارب یا اس قسم کے تمام اعدادوشمار بے معنی اور بے بنیاد ہیں کیونکہ ایسی کوئی بات حکومت کی جانب سے جاری کی گئی دستاویز میں موجود نہیں ہے۔ اس دستاویز سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حکومت کو پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ نجکاری کے بعد 56 ارب کی منفی شراکتی حصص میں چلے گی، جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو جو بھی 56 ارب سے زیادہ کی بولی لگائے گا وہ پی آئی اے کا مالک بن سکتا ہے۔
پاکستانی میڈیا میں یہ ذرائع سے یہ خبریں بھی چل رہی ہیں کہ خلیجی ممالک کے حکام نے پی آئی اے کی خریداری کے لیے حکومت سے رابطے بھی تیز کر دیے ہیں اور ان ممالک میں سرمایہ کاروں نے اعلیٰ حکام سے بات چیت کی ہے۔
اس خبر میں صرف اتنی صداقت ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ترکی، متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی حکام کو بریفنگ دی مگر گذشتہ ہفتے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں حکام کے پاس کوئی ایک بھی دلچسپی رکھنے والی پارٹی نہیں تھی۔
دبئی کی ایک پارٹی جو اب تک دلچسپی دکھا رہی تھی اس کی جانب سے بھی معاملات اس رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہے جیسی توقع تھی جس کے نتیجے میں حکومت نے اشتہار دیا ہے۔ ان دنوں حکومت اور ارنسٹ اینڈ ینگ کی ٹیم کوشش کر رہے ہیں کہ مئی کی ڈیڈ لائن سے قبل کچھ دلچسپی رکھنے والی پارٹیوں کو لا سکیں۔
اس مرحلے پر حکومت نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو اس نجکاری کے مرحلے کے نتائج کی تیاری کرے گی جسے پری کوالیفیکیشن کمیٹی کہا گیا ہے۔ اس کمیٹی میں نجکاری کمیشن کے نمائندے، سیکریٹری ایوی ایشن، کنسلٹنٹس ارنسٹ اینڈ ینگ کے نمائندے اور کراچی کی لا فرم حیدر موٹا کے نمائندے شامل ہیں۔
موجودہ صورت حال
اس وقت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ حکومت پاکستان کی ملکیتی کمپنی ہے جس کے 96 فیصد حصص حکومتِ پاکستان کے پاس ہیں۔
ایئرلائن میں اس وقت مسافروں کی آمدورفت، زمین پر ہینڈلنگ جسے گراؤنڈ ہینڈلنگ کہتے ہیں، فلائٹ کچن جو طیاروں میں کھانا فراہم کرتا ہے، انجینیئرنگ، سازوسامان کی نقل و حمل یعنی کارگو اور فلائٹ ٹریننگ یعنی ہوابازی کے مختلف شعبوں میں تربیت فراہم کرنے کے شعبے شامل ہیں۔
پی آئی اے نے گذشتہ سال دو کروڑ مسافروں کو خدمات فراہم کیں جو اس کے پابندی سے قبل کے اعدادوشمار سے بہت کم تعداد ہے۔ پی آئی اے اس وقت 34 شہروں کے لیے پروازیں چلاتی ہے جبکہ اس کے پاس دنیا کے 97 شہروں کے لیے پروازوں کے حقوق ہیں۔ پی آئی اے کے پاس موجودہ ملازمین کی تعداد 8031 ہے۔
حکومت کیا چاہتی ہے؟
حکومت پاکستان اور نئی تشکیل شدہ پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کارپوریشن لمیٹڈ میں 51 فیصد سے 100 فیصد حصص کی فروخت کے لیے بذریعہ نجکاری کمیشن آف پاکستان خواہش مند حکومتوں اور کمپنوں کی جانب سے اظہارِ دلچپسی کی طلب گار ہے جو ان حصص کے ساتھ ساتھ ایئرلائن کا انتظامی کنٹرول بھی حاصل کریں گے۔
خواہش مند پارٹیاں پانچ ہزار ڈالر کے ساتھ اپنی اظہارِ دلچسپی تین مئی 2024 شام چار بجے تک نجکاری کمیشن میں جمع کروا سکتے ہیں۔
پی آئی اے اور ہولڈنگ کمپنی کا سکیم آف اریجنمنٹس کیا ہے؟
پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ کی تنظیم نو اور نجکاری کے مقصد کے ساتھ، حکومت پاکستان نے گذشتہ دنوں پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ کے نام سے ایک کمپنی تشکیل دی جو موجودہ پی آئی اے کا ایک عکس ہے۔
پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ اور پی آئی اے کارپوریشن ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ نے کمپنیز ایکٹ، 2017 کے تحت سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پاس ایک سکیم آف ارینجمنٹ جمع کروائی ہے جو منجملہ دوسری باتوں کے، جن میں ایئرلائن کے مرکزی کاروبار سے غیر متعلقہ بعض اثاثوں اور واجبات کی ہولڈنگ کمپنی کو منتقلی جیسے معاملات ہیں، بارے میں بنیادی ذمہ داریوں کو طے کرتی ہے۔
اس سکیم آف ارینجمنٹ کے مطابق پی آئی اے چند مرکزی اثاثوں اور واجبات کو اپنے پاس رکھے گی۔ ان میں بعض اثاثے، ذمہ داریاں اور ملازمین شامل ہیں جو ایئرلائن کے ہوا بازی کے کام اور اس سے متعلقہ سہولیات کی ملکیت رکھے گی۔ جن میں گراؤنڈ ہینڈلنگ، فلائٹ ٹریننگ، فلائٹ کچن کارگو اور انجینیئرنگ شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کے مختلف آپریشنل معاہدے جن میں ایئر سروس معاہدے، مختلف ایئرلائنز کے ساتھ کوڈ شیئرنگ معاہدے، ایندھن کی سپلائی کے انتظامات، مسافروں کو ٹکٹوں کی فروخت کے ایجنسی معاہدے اور غیر ملکی قرضے شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کے موجودہ حصص مالکان اسی تناسب سے پی آئی اے ہولڈنگ کے حصص کے مالکان بن جائیں گے اور موجودہ پی آئی اے نئی تشکیل شدہ ہولڈنگ کمپنی کی ایک مکمل ملکیتی ذیلی کمپنی بن جائے گی جسے سٹاک ایکسچینج پر رجسٹر کروایا جائے گا جس کے بعد پہلے موجودہ پی آئی اے سٹاک ایکسچینج سے ڈی لسٹ کر دی جائے گی۔
پی آئی اے نجکاری کے دوران اور اس کے بعد اپنی ہی ہولڈنگ کمپنی سے آپریشنل انتظامات کے لیے معاہدے کر سکتی ہے جیسا کہ دفاتر کی جگہ، مثلاً سیلز دفاتر، تاکہ آپریشنز کو ہموار طریقے سے جاری رکھا جا سکے۔
موجودہ ملازمین کے ساتھ کیا ہو گا؟
پی آئی اے کے موجودہ 8031 ملازمین کو درجہ بندیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک درجہ بندی کور ملازمین کی ہے جو ایئرلائن کے انتظامی آپریشنز کے لیے لازمی ہیں، جیسا کہ پائلٹس، کیبن کریو، انجینیئرز وغیرہ وغیرہ۔
دوسری درجہ بندی نان کور ملازمین کی ہے جن کے بارے میں یہ خیال کیا گیا ہے کہ ان کی ضرورت نہیں ہو گی۔
تمام نان کور ملازمین کو مؤثر تاریخ جو کہ فروخت کے عمل میئ متعین کی جائے گی، سے ’ہولڈ کور‘ کے ملازمین تصور کیا جائے گا۔
یہ منتقلی صرف کمپنی کی ہو گی اور یہ تمام نان کور ملازمین ان ہی شرائط و ضوابط پر وہی خدمات بجا لاتے رہیں گے کہ جو اب ان سے وابستہ ہیں۔
پی آئی اے ذرائع کے مطابق ان میں سے اگر کسی ملازم کو نئے مالکان چاہیں گے تو وہ اپنی شرائط و ضوابط پر ملازمت پر رکھ سکتے ہیں ورنہ ان میں سے اکثریت کے لیے گولڈن ہینڈ شیک یا دوسرے طریقے استعمال کر کے جان چھڑائی جائے گی۔
دوسری جانب برقرار رکھے جانے والے تمام ملازمین، مؤثر تاریخ کو یا اس موثر تاریخ سے پی آئی اے کے ملازمین سمجھے جائیں گے، ان ہی شرائط و ضوابط پر جن پر وہ پی آئی اے کی نئی ملکیت سے فوری پہلے ملازم تھے۔
تاہم پی آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہو گا کیوں کہ نئے مالکان چاہیں گے وہ اپنا طریقہ کار لے کر آئیں اور اپنی شرائط و ضوابط پر ان سب لوگوں کو ملازم رکھیں۔
یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔