پاکستانی سینیما اور ڈرامہ انڈسٹری کی نامور اداکارہ مہوش حیات کی فلم ’دغا باز دل‘ عید پر ریلیز ہو رہی ہے جو ان کے بقول ایک ’ہارر کامیڈی‘ فلم ہے۔
مہوش حیات کا اپنے فلمی کیریئر میں کام کے حوالے سے کہتی ہیں کہ وہ مقدار کے بجائے معیار پر توجہ دیتی ہیں۔
مہوش حیات انٹرنیشنل سیریز ’مس مارول‘ میں کام کرنے کے بعد اب باضابطہ عالمی سطح کی سٹار ہیں۔ ان کی فلم ’دغا باز دل‘ آج ریلیز ہو رہی ہے۔
’نامعلوم افراد‘ ، ’ایکٹر ان لا‘ اور ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ جیسی کامیاب ترین فلموں میں جلوہ گر ہونے والی اداکارہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہا کہ ’کرونا کی وبا کے بعد سے فلمیں بہت کم بن رہی ہیں، پروڈیوسرز ابھی اس صنعت پر پیسہ نہیں لگا رہے تو کم فلموں میں سے جو میرے پاس آتی ہیں، اس میں سے بھی جو اچھی ہوتی ہے وہ کرلیتی ہوں۔‘
ان کے بقول ’دغا باز دل‘ میں کام کرنے کی وجہ اس کی کہانی کا دلچسپ ہونا ہے۔
مہوش حیات نے بتایا کہ وہ ہدایت کار وجاہت رؤف کے ساتھ 2019 کی فلم ’چھلاوا‘ بھی کرچکی ہیں جو باکس آفس پر کامیاب رہی تھی اور اس وقت کا تجربہ اچھا تھا۔
اس لیے انہوں نے اس فلم کے لیے ہاں کردی، تاہم انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کے اس فلم میں دغا باز کون ہے لیکن انہوں نے یہ واضع کر دیا کہ وہ دغا باز کا کردار نہیں کر رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وجاہت رؤف کی گذشتہ فلم میں بھی مہوش کا نام ’زویا‘ تھا اور اس میں بھی زویا ہی ہے، اس بارے میں مہوش کا کہنا ہے کہ شاید وہ اس نام کو خوش قسمت سمجھتے ہوں، لیکن انہوں نے خود ایسا سوچا نہیں تھا، اب اگلی فلم میں وہ کہہ دیں گی کی زویا نام کی جگہ کوئی اور نام رکھیں۔
اس فلم کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے مہوش حیات کا کہنا تھا کہ یہ اصل میں ایک طرح کی ہارر کامیڈی فلم ہے اور یہی اس فلم کا منفرد انداز ہے۔
مہوش حیات کو ذاتی طور پر ہارر کامیڈی پسند ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ جتنا لطف انہیں یہ فلم کرتے ہوئے آیا، عوام کو بھی یہ فلم اتنی ہی پسند آئے۔
ٹی وی ڈراموں میں واپسی کے بارے میں مہوش حیات کا کہنا تھا کہ ٹی وی ڈراما ہر گھر میں دیکھا جاتا ہے جبکہ سینیما کے لیے ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔
ان کے بقول اس لیے وہ ڈرامے میں کام کرنا چاہتی ہیں اگرچہ ڈرامے میں کام کرنا بہت تھکا دینے والا عمل ہوتا ہے، فلم میں تو دن میں دو سے تین سین ہوتے ہیں مگر ٹی وی میں بہت زیادہ کام ہوتا ہے مگر پھر وہ کئی ماہ چلتا بھی رہتا ہے۔
’اس لیے اچھی کہانی ملی تو ٹی وی کی جانب واپس ضرور جاؤں گی۔‘