ملاکنڈ ڈویژن میں واقع ضلع شانگلہ، جس کی آبادی آٹھ لاکھ 54 ہزار سے زائد ہے، میں کوئلے کی کانوں سے مزدورں کی لاشیں آنا معمول بن چکا ہے جبکہ ضلعے میں 72 ہزار سے زائد افراد ان کانوں میں کام کے دوران معذور ہوچکے ہیں۔
بہت سے واقعات میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد بھی حادثات میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
گذشتہ ہفتے بھی کان حادثات کے نتیجے میں جان سے جانے والے چار مزدوروں کی لاشیں شانگلہ کے مختلف علاقوں میں لائی گئیں، جن میں دو چچازاد بھائی بھی شامل تھے۔
اس حوالے سے شانگلہ کے گاؤں پیر آباد کے رہائشی سلطان روم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پانچ دن پہلے بلوچستان میں کوئلے کی کان میں کام کے دوران میرا چھوٹا بھائی 19 سالہ شاکر اللہ اور اس کے دو ساتھی ٹیلے سے گر کر شدید زخمی ہوگئے تھے، بعدازاں میرا بھائی ہسپتال میں دم توڑ گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ تین بھائی کوئلے کی کان میں مزدوری کرتے تھے اور اب دو بھائی رہ گئے ہیں جبکہ ان کے والد بھی کوئلے کی کان میں مزدوری کرتے تھے۔
سلطان روم نے بتایا کہ شانگلہ میں روزگار نہ ہونے اور کوئلہ کان میں 60 سے 70 ہزار روپے تک ماہانہ آمدن ملنے کی وجہ سے نوجوان کوئلے کی کانوں میں مزدوری کو ترجیح دے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شانگلہ کے علاقے الپوری ڈھیری سے تعلق رکھنے والے کوئلہ کان کے مزدور بخت افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ 2013 سے کوئلے کی کانوں میں مزدوری کر رہے ہیں اور تین چار ہزار فٹ نیچے کان سے کوئلہ نکالتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بلوچستان کے علاوہ کوئٹہ اور خیبرپختونخوا کے علاقے درہ آدم خیل میں بھی کوئلے کی کانوں میں کام کرچکے ہیں۔
35 سالہ بخت افسر نے بتایا کہ کوئلہ کان میں ٹھیکے دار، مینیجر، جوڑی سر اور مزدور سب شانگلہ کے ہوتے ہیں لیکن ان کا مقصد صرف کان سے کوئلہ نکالنا ہوتا ہے۔ کان میں مزدوروں کی حفاظت اور علاج کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے مزدور مختلف حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
الپوری کے رہائشی 75 سالہ بخت نبی کے مطابق انہوں نے 60 سال تک کوئلے کی کانوں میں مزدوری کی اور اب ان کے تین بیٹے اور نواسے بھی کان کنی کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’میرا ایک بیٹا فضل ربی نو سال پہلے کوئٹہ کی کوئلہ کان میں فوت ہوچکا ہے اور اب ان کے تین جوان بیٹے بھی کوئلے کی کان میں مزدوری کر رہے ہیں۔‘
کیا وجہ ہے کہ شانگلہ کے لوگ کوئلے کی کان میں کام کرتے ہیں؟
بخت نبی نے بتایا کہ ’شانگلہ پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں پر غربت زیادہ ہے۔ کوئلے کی کان میں ایک مزدور کی دیہاڑی ڈھائی ہزار تک بن جاتی ہے، جس کی وجہ سے شانگلہ کے نوجوان دوسرے کاموں کی نسبت کوئلے کی کانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’شانگلہ کے تقریباً ہر گھر سے مرد کوئلے کی کانوں میں مزدوری کر رہے ہیں جبکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ باپ اپنے بیٹے کی لاش کوئلے کی کان سے لاکر تدفین کے 10 دن بعد دوبارہ کان میں مزدوری کے لیے چلے جاتے ہیں۔‘
شانگلہ سے تعلق رکھنے والے سینٹرل مائن فیڈریشن کے خیبرپختونخوا کے صدر علی باش خان نے بتایا کہ ضلع شانگلہ کی 67 فیصد آبادی کوئلے کی کانوں سے وابستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے جس جس علاقے میں بھی کوئلے کی کان ہو یا دوسری کوئی کان کنی ہو، وہاں شانگلہ کے مزدور جاتے ہیں۔
علی باش کے مطابق رواں سال پاکستان کے مختلف علاقوں میں واقع کوئلے کی کانوں میں اب تک تقریباً 140 مزدوروں کی اموات ہو چکی ہیں، جن میں سب سے زیادہ ضلع شانگلہ کے ہیں۔
اسی طرح اگست کے مہینے میں پاکستان کی مختلف کوئلہ کانوں میں شانگلہ کے 27 افراد کی اموات ہوئی ہیں۔
بقول علی باش خان، ضلع شانگلہ میں 72 ہزار سے زیادہ مزدور کوئلےکی کانوں میں کام کے دوران معذور ہو چکے ہیں۔ ’کسی کی آنکھ نہیں ہے تو کسی کے کان نہیں ہیں۔ کسی کا ہاتھ نہیں ہے تو کسی کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی ہے۔ یہ بیچارے اسی حالت میں اپنے گھروں میں پڑے ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سروے کے مطابق کوئلے کی کانوں میں 1990 سے لے کر 2023 تک ایک لاکھ 55 ہزار لوگ موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔
مائن لیبر فیڈریشن کے رہنما نے بتایا کہ سال 2011 میں بلوچستان کی پاکستان مائن ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ایم ڈی سی) میں کان کے اندر دھماکہ ہونے سے ایک ہی دن شانگلہ کے علاقے پیر آباد میں 42 مزدروں کی لاشیں لائی گئی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ شانگلہ واحد ضلع ہے، جو پاکستان کو کان کنی کے لیے لیبر فراہم کرتا ہے، لیکن شانگلہ میں اتنی بڑی تعداد میں مزدور ہونے کے باوجود ان کے بچوں کے لیے سکول نہیں ہے۔ اسی طرح شانگلہ میں مزدوروں کے لیے ہسپتال بھی نہیں ہے۔
خیبرپختوںخوا کے مائن اینڈ منرلز ڈیپارٹمنٹ کے چیف انسپکٹر فضل رازق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کوئلے کی کانوں میں محکمے کی طرف سے باقاعدہ انسپکٹر جاتے ہیں اور جہاں پر بھی کانوں میں مزدوروں کے لیے حفاظتی اقدامات نہیں ہوتے، اس لیز اونر، مینیجر اور ٹھیکے دار کے خلاف کاوروائی کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم دن رات کانوں پر چھاپے مارتے ہیں اور مالکان، ٹھیکے دار اور مزدورں کو تربیت اور آگاہی سیشن بھی کرواتے ہیں۔‘
چیف انسپکٹر فضل رازق نے بتایا کہ مزدورں کی شکایت پر کان مالکان کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی ہے اور چیکنگ کے دوران جرمانے بھی لگائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پراسیکیویشن کے بعد حفاظتی اقدامات نہ کرنے پر مالک یا ٹھیکے دار کو دو سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔