سندھ میں ضلع سانگھڑ کے گاؤں عثمان راجڑ کے رہائشی 50 سالہ حاجی راجڑ چارپائی بُننے کے ماہر کاریگر مانے جاتے ہیں، جن کے ہاتھ کی بنی ہوئی چارپائیاں نہ صرف پاکستاں بھر میں استعمال کی جاتی ہیں بلکہ سرحد پار انڈیا بھی جاتی ہیں۔
پاکستان کے سابق صدر فاروق لغاری کے گیسٹ ہاؤس میں بھی ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی چھ چارپائیاں موجود ہیں۔
حاجی راجڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ چارپائی کی بُنائی کا کام گذشتہ 30 سال سے کر رہے ہیں۔ ’میرے استاد اچھڑی تھر کے علاقے سے تعلق رکھنے والے آچر راجڑ ہیں۔ اس وقت میرے بھی 12 شاگرد ہیں جو سندھ بھر میں یہ کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایک اچھی چارپائی کی بُنائی ایک ماہ سے زیادہ وقت لے جاتی ہے۔ یہ کام انتہائی بارک بینی سے کرنا پڑتا ہے۔‘
حاجی راجڑ چارپائی کی بُنائی میں شیشم کی ڈوری استعمال کرتے ہیں جو انہیں پنجاب سے منگوانی پڑتی ہے۔ اس ڈوری کے 15 سے زیادہ رنگ ہوتے ہیں اور یہ 800 روپے کلو ملتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’نہ یہ ڈوری اور نہ ہی اس کے رنگ خراب ہوتے ہیں، چاہے اسے آپ تپش میں رکھیں یا بارش میں پڑی رہے۔‘
حاجی راجڑ کے مطابق وہ اپنے کام کے دوران رنگوں کی ہم آہنگی کا خیال رکھتے ہیں اور اس کے لیے وہ انٹرنیٹ سے بھی مدد حاصل کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہماری عورتیں بھی ہماری بہت مدد کرتی ہیں اور کبھی کبھی تو ایک چارپائی پر ایک لاکھ سے زیادہ خرچہ بھی ہو جاتا ہے۔‘
ایک چارپائی کی عام طور پر تو ایک سے دو ہزار میں بُنائی کی جاتی ہے مگر حاجی راجڑ کے ڈیزائن کی وجہ سے اس کی بُنائی 25 ہزار سے لے کر دو لاکھ روپے تک بھی ہوتی ہے۔
ان کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چارپائی اکثر بیٹیوں کو جہیز میں دی جاتی ہے اور مہمان خانوں میں بھی سجائی جاتی ہے۔ صحرائے تھر میں بسنے والے ہندو راجپوتوں نے اپنی بیٹیوں کو بھی یہ چارپائیاں جہیز میں دی ہیں، جو انڈیا بھی گئی ہیں۔
حاجی بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کی جو سب سے اچھی چارپائی بنائی تھی وہ انڈیا میں ہے، جس میں انہوں نے شیشے کے ٹکڑوں کا استعمال کیا تھا۔