معروف اداکار اور صدا کار طلعت حسین اتوار کو کراچی میں طویل علالت کے باعث انتقال کرگئے۔ ان کی وفات کی تصدیق ان کی بیٹی نے کی۔
طلعت حسن کی بیٹی تزئین حسین نے انسٹاگرام پر ایک پوسٹ میں اپنے والد کی وفات کی خبر دیتے ہوئے لکھا: ’گہرے رنج و غم کے ساتھ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے پیارے طلعت حسین آج صبح اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔‘
والد کی مغفرت کے لیے دعاؤں کی درخواست کرتے ہوئے تزئین حسین نے مزید کہا کہ طلعت حسین کے جنازے اور تدفین کی تفصیلات بعد میں شیئر کی جائیں گی۔
طلعت حسین کافی عرصے سے علیل اور کراچی کے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔
تزئین حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار صالحہ فیروز سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے والد کی ذہنی حالت انتہائی خراب ہو چکی تھی اور وہ لوگوں کو پہچاننے سے بھی قاصر تھے۔ تزئین حسین نے بتایا کہ ’ان کی طبیعت پہلے ہی ناساز تھی اور وہ ہسپتال میں داخل تھے۔ (اتوار کی) صبح سات سے ساڑھے سات بجے کے درمیان ان کا انتقال ہوا۔ ہم غم سے نڈھال ہیں۔‘
رواں برس جنوری میں اداکار فیصل قریشی نے طلعت حسین سے ملاقات کے بعد اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں بتایا تھا کہ اداکار ڈیمینشیا (بھولنے کے مرض) کے شکار ہیں۔
فیصل قریشی نے طلعت حسین سے ملاقات کی ویڈیو بھی شیئر کی تھی، جس میں انہیں فیصل قریشی کے حوالے سے کہتے ہوئے سنا گیا: ’مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ بہت اچھا لڑکا ہے۔‘
طلعت حسین کا آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی سے گہرا تعلق تھا اور وہ آرٹس کونسل کی گورننگ باڈی کا حصہ بھی رہے۔
آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ نے طلعت حسین کے انتقال پر گہرے غم اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’طلعت حسین جیسا منجھا ہوا اداکار صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اور فن اداکاری میں طلعت حسین کا کوئی ثانی نہیں تھا۔‘
طلعت حسین 1940 میں دہلی میں پیدا ہوئے اور بعدازاں ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوگیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحافی حسن ملک نے تین سال قبل طلعت حسین کا انٹرویو کیا تھا، جس کے دوران اداکار نے بتایا تھا کہ ان کی والدہ ان کے ریڈیو اور ٹی وی کے شعبے میں آنے کے سخت خلاف تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا سول سروس میں جائے، لیکن والدہ کوشش کے باوجود انہیں روک نہ سکیں اور وہ کام کرتے رہے۔
1972 میں ان کی شادی پروفیسر رخشندہ سے ہوئی، جس سے ان کے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔
طلعت حسین نے انگلش لٹریچر میں گریجویشن کے بعد لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے تھیٹر آرٹس میں ٹریننگ حاصل کی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔
صحافی حسن ملک کے مطابق طلعت حسین نے اپنے کیریئر کا آغاز سینیما میں ایک گیٹ کیپر کے طور پر کیا اور بعد میں جب سینیما کے مالک کو ان کے انگریزی بولنے کی قابلیت کا علم ہوا تو اس نے انہیں گیٹ بکنگ کلرک بنا دیا۔
حسن ملک کے مطابق لندن میں اداکاری کی اعلیٰٖ تعلیم کے دوران انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ بطور ویٹر ملازمت بھی کی۔
طلعت حسین نے ریڈیو اور ٹی وی کو بہت سے لازوال پروگرام اور ڈرامے دیے۔
1971 کی جنگ کے دوران انہوں نے ریڈیو پر ’کیا کرتے ہو مہاراج‘ کے نام سے ایک پروگرام کیا تھا، جو جنگ ختم ہونے تک جاری رہا۔
اس کے علاوہ ان کے مشہور ٹی وی ڈراموں میں ارجمند، آنسو، طارق بن زیاد، بندش، دیس پردیس، عید کا جوڑا، فنون لطیفہ، ہوائیں، اک نئے موڑ پہ، پرچھائیاں، دی کاسل - ایک امید، ٹائپسٹ، انسان اور آدمی، رابطہ، نائٹ کانسٹیبل، درد کا شجر شامل ہیں۔
طلعت حسین نے بڑی سکرین پر بھی کام کیا۔ ان کی فلموں میں ’چراغ جلتا رہا، گمنام، انسان اور آدمی، لاج، قربانی، سوتن کی بیٹی (انڈین)، اشارہ، آشنا، بندگی اور محبت مر نہیں سکتی‘ شامل ہیں۔
طلعت حسین اداکاری کے ساتھ ساتھ ادب، فلسفے، مذہب، تصوف، مصوری اور سیاست کے موضوعات پر بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہیں 1982 میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
اظہار تعزیت
وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے طلعت حسین کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری تعزیتی بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ ’ طلعت حسین نے اپنی جاندار اداکاری سے دنیا بھر کے ڈرامہ اور فلم شائقین کے دل میں اپنی جگہ بنائی۔ ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا اسے کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔‘
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’ طلعت حسین فن اداکاری میں اپنی مثال آپ تھے۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا کہ طلعت حسین ایک منفرد فن کار تھے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر دلی افسوس ہوا۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں طلعت حسین کے چاہنے والے آج افسردہ ہیں۔