انڈیا: انتخابی جیت کے لیے تقسیم کو بڑھاوا دینا مہنگا ثابت ہو گا

بی جے پی کی حکمت عملی کامیاب ہو سکتی ہے، لیکن جب فتح خطرناک حد تک مہنگی ہو تو معاشرتی بدامنی کے نتیجے میں معاشرے کے تمام طبقات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

امرتسر میں 30 مئی 2024 کو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی نعرے لگا رہے ہیں (اے ایف پی)

انڈیا کا طویل انتخابی عمل، جو جدید دور کے سب سے زیادہ تقسیم کرنے والے انتخابات میں سے ایک ہے، منگل کو نتائج کے اعلان کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔

رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹروں کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں نوجوانوں کی بے روزگاری تقریباً 50 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ امیر اور غریب کے درمیان وسیع خلیج ایک اور بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹنگ میں کمی کا خدشہ ہونے کی وجہ سے، پاپولسٹ ہندو قوم پرست سیاست دانوں نے اقلیتوں کو نفرت انگیز ظاہر کر کے اور انہیں ووٹ دینے کے حق سے محروم کر کے ووٹ حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔

سب سے زیادہ واضح بدسلوکی بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ہوئی ہے جہاں اقلیتیں بڑی تعداد میں ہیں۔ غیر ہندو برادریوں کو ’بلڈوزر جسٹس‘ کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں پورے ضلع کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیا گیا، اور لوگوں کو ووٹر لسٹوں سے بےجواز طور پر ہٹا دیا گیا۔

اتر پردیش کے کئی مقامات پر پولیس نے غیر ہندوؤں پر حملہ کیا اور انہیں ووٹ دینے سے روکا۔ کشمیر میں ووٹروں کے خلاف تشدد اور بھی زیادہ واضح تھا، جہاں 2019 کو منظور ہونے والے ایک قانون کے تحت یہاں کی خصوصی خود مختار حیثیت کو منسوخ کر دیا گیا۔ اس عمل نے بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مخالفین نے پولیس پر پارٹی کے کارکنوں کو حراست میں لینے اور دھمکانے اور ووٹ کو دبانے کا الزام لگایا ہے۔

آسام میں ’ڈیمی لیمٹیشن‘ کے نام سے جانا جانے والا ایک عمل غیر ہندو برادریوں کو اپنے قریبی ووٹنگ سینٹروں تک 100 کلومیٹر سے زیادہ سفر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے خبردار کیا ہے کہ ڈیمی لیمٹیشن نے ’یقینی بنایا ہے کہ مستقبل میں کوئی مسلمان امیدوار جیت نہ سکے۔‘

بی جے پی نے مخالف جماعتوں کو بھی جارحانہ طریقے سے نشانہ بنایا ہے۔ فروری میں کانگریس پارٹی کے بینک اکاؤنٹس ٹیکس کی ادائیگیوں کے سبب منجمد کر دیے گئے تھے اور سینیئر مخالفین کو مختلف کمزور الزامات میں جیل بھیج دیا گیا، اور میڈیا کے ان اداروں کا صفایا کیا جا رہا ہے جنہیں بی جے پی کے حق میں مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ ان اداروں میں بی بی سی بھی شامل ہے۔

اس دوران حامی میڈیا اداروں نے خود وزیر اعظم اور بی جے پی کو فروغ دینے کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔ یہ انتخابات مصنوعی ذہانت کے ڈیپ فیک مواد اور آن لائن غلط معلومات کے سیلاب کا بھی ریکارڈ قائم کر سکتے ہیں۔

انڈیا کی خارجہ پالیسی تضادات سے پر ہے: وزیر اعظم نریندر مودی طویل عرصے سے چین کو اہم اقتصادی شراکت دار کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔ لیکن پھر ان کے نزدیک شی جن پنگ کی توسیعی قوم پرستی انڈیا کی خود مختاری کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو گئی۔

بائیڈن انتظامیہ کی انڈیا کو چین، روس اور ایران کے خلاف اتحادی بنانے کی کوشش میں، ملک کی جمہوری کمزوریوں کو نظرانداز کرنے کا رجحان رہا ہے۔ انڈیا نے یوکرین اور دیگر عالمی خطرات پر دہری پالیسی اختیار کی ہے، جس کی وجہ انڈیا کی روس اور ایران سے تیل کی درآمد پر انحصار ہے۔

انڈیا نے جی سی سی ممالک کے ساتھ مضبوط تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے، لیکن مودی ان چند عالمی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے غزہ کی جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم نے خود بھی تقسیم کرنے والے اور اشتعال انگیز بیانات دیے ہیں۔ مثال کے طور پر مودی نے ایک انتخابی جلسے میں کہا: ’جب وہ اقتدار میں تھے، کانگریس نے کہا کہ مسلمانوں کو قوم کے وسائل پر پہلا حق ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر وہ اقتدار میں آئیں گے تو وہ ساری دولت اکٹھا کریں گے۔ اور وہ کس کو دیں گے؟ ان لوگوں کو جن کے زیادہ بچے ہیں۔ گھس پیٹھیوں کو۔‘

مودی نے مسلمانوں کو ’گھس پیٹھیا‘ کہہ کر بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ یہ عام تصور دہرایا کہ ان کے خاندان زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں تاکہ ہندوؤں کو انڈیا سے بے دخل کر سکیں۔

بی جے پی رہنماؤں نے سیاسی تقریروں اور انتخابی پروپیگنڈے میں بار بار ’لَو جہاد‘ کی اصطلاح پر زور دیا گیا ہے۔ لو جہاد ایک پروپیگنڈا ہے جس کے تحت دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمان ہندو خواتین کو بہکانے اور زبردستی مسلمان بنا رہے ہیں۔

اس خوف کو بڑھاوا دیتے ہوئے بی جے پی کی ریاستی حکومتوں نے مذہب تبدیلی کے خلاف قوانین متعارف کرائے ہیں اور بین المذاہب جوڑوں کے خلاف پولیس کی سختی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ایک حالیہ بالی ووڈ فلم ’کیرالہ سٹوری،‘ جسے بی جے پی سیاست دانوں نے فروغ دیا، نے دعویٰ کیا کہ کیرالہ ریاست میں 32 ہزار خواتین کو زبردستی مسلمان بنا کر داعش میں بھرتی کیا گیا۔ یہ ان حالیہ پروپیگنڈا بالی وڈ فلموں میں سے ایک ہے جنہوں نے غیر ہندو آبادی کو بدنام کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ انتہا پسند ہندو قوم پرست سیکیولر، سکھ، عیسائی اور دیگر کو نشانہ بنا چکے ہیں، انڈیا کے 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کو بی جے پی کی طرف سے ہندو برتری کے یکسانیت پسندانہ تصور کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے، اور نتیجتاً انہیں روزگار اور تعلیم میں بڑھتی ہوئی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ساتھ ہی ساتھ معاشرتی ترقی کی راہ میں بڑھتی ہوئی رکاوٹیں بھی۔

مودی کا انڈیا اکثر ایک اقتصادی معجزے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس کے تحت کہا جاتا ہے کہ بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کے منصوبے شروع ہوئے ہیں، اور شہریوں کی ٹیکنالوجی، بینکنگ اور صارفین کی اشیا تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ انتہائی غربت میں زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب 2015 کے 18.7 فیصد سے کم ہو کر 2021 میں 12 فیصد ہو گیا ہے، لیکن معاشرتی عدم مساوات خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، جس میں آبادی کے اوپر 10 فیصد لوگوں کے پاس قومی دولت کا 77 فیصد ہے۔

اس کے علاوہ انڈیا کا 2019 کا شہریت قانون لاکھوں لوگوں کو بےوطن بنانے کی طاقت رکھتا ہے۔

بی جے پی کے حامی دائیں بازو کے تنظیمیں فرقہ وارانہ تشدد کا سہارا لینے اور گائے کے گوشت کی سمگلنگ کے الزام میں غیر ہندوؤں کو سرِ عام قتل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بی جے پی کے سیاست دان اقلیتوں پر قاتلانہ حملوں کے الزام میں بدنام زمانہ ہندو خدائی فوجدارں کو کھلم کھلا شہ دیتے ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر میں اضافہ ہوا ہے، ایک تحقیقی گروپ کے مطابق حالیہ واقعات میں سے 75 فیصد بی جے پی کے زیر حکومت ریاستوں میں پیش آئے ہیں۔

پورے یورپ، امریکہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی پاپولسٹ اور فاشسٹ سیاست دانوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی نفرت کو سیاسی طاقت کے لیے استعمال کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے۔

مجھے 1984 میں سابق وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کا انٹرویو کرنے کا خوشگوار اور تلخ موقع ملا، جس کے چند گھنٹے بعد وزیر اعظم کو ان کے سکھ محافظ نے قتل کر دیا تھا۔

اندرا گاندھی نے مجھے کشمیر کے پہاڑوں میں پیدل سفر کے اپنے شوق کے بارے میں بتایا، اور اپنی قوم کے داخلی تنوع کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ’انڈیا کو اپنے تمام لوگوں کا ملک ہونا چاہیے، نہ کہ صرف ایک طبقے کے لیے جمہوریت۔‘

کم ہی شک ہے کہ ہندو اکثریت سے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے بی جے پی کی حکمت عملی کامیاب ہو جائے گی، لیکن جب فتح اس قدر خطرناک حد تک مہنگی ہو، تو معاشرتی بدامنی کے نتیجے میں معاشرے کے تمام طبقات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

بشکریہ عرب نیوز

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر