100 سال پہلے کوہاٹ میں کیا ہوا تھا؟

کوہاٹ میں آٹھ ستمبر 1924 کو کیا ہوا تھا کہ شہر میں پانچ ہزار ہندوؤں میں سے 3,200 ہندو ایک ہی رات میں شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

آزادی سے قبل کے کوہاٹ کا ایک منظر (پبلک ڈومین)

آج سے 100 سال پہلے کوہاٹ میں ایک ایسا ہندو مسلم فساد ہوا، جس نے تحریکِ خلافت میں قائم ہندو مسلم بھائی چارے کو پاش پاش کر دیا۔

مورخین کی رائے ہے کہ تحریکِ خلافت نے جتنا دونوں قوموں کو قریب کیا تھا بعد میں اتنا ہی دور کر دیا۔

کوہاٹ میں آٹھ ستمبر 1924 کو کیا ہوا تھا کہ شہر میں پانچ ہزار ہندوؤں میں سے 3,200 ہندو ایک ہی رات میں شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

تب کوہاٹ شہر کی آبادی قریباً 17,000 تھی۔ ان فسادات کی فوری وجہ بظاہر دو منافرانہ نظمیں بنیں مگر ان نظموں کی اشاعت کے پیچھے بھی ایک خاص ماحول کی موجودگی تھی، جس کا نشانہ مذہبی ہم آہنگی بنی۔

دو منافرانہ نظمیں

کوہاٹ میں ہندو تعداد میں کم ہونے کے باوجود معاشی طور پر مسلمانوں سے کہیں زیادہ مضبوط تھے کیونکہ وہ کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔

1919 سے 1924 تک کوہاٹ کے تقریباً 150 ہندوؤں نے اسلام قبول کیا تھا، جس کے جواب میں ہندوؤں کی مذہبی تحریکیں آریہ سماج اور سناتن دھرم کوہاٹ میں کافی متحرک تھیں۔

کوہاٹ فسادات کی دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ایک مقامی سردار مکھن سنگھ کا بیٹا ایک مسلمان لڑکی کو گھر سے بھگا کر لے گیا جس سے مسلمانوں میں اشتعال بڑھا۔

علما نے ہندوؤں اور سکھوں کے خلاف مساجد سے تقریریں کرنا شروع کر دیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کے نمائندہ اخبار ’لاحول‘ میں ایک ایسی نظم چھپی، جس سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔

اس نظم میں کہا گیا تھا کہ ’ہم کراڑوں کی کتاب گیتا کو جلا کر راکھ کر دیں گے، ہم کرشنا کی بانسری توڑ دیں گے۔ مسلمانو! اٹھو، تلوار اٹھا کر کراڑوں اور ان کی دیویوں کو نیست و نابود کر دو۔‘

اس نظم کی اشاعت سے ہندو آگ بگولہ ہو گئے۔ سناتن دھرم سبھا کے سیکریٹری جیون داس نے جواباً ایک کتابچہ لکھا جس کا عنوان تھا ’کرشنا سندیس۔‘

اس میں ہندوؤں کی مذہبی شناخت کو ابھارنے کے لیے نظمیں چھاپی گئی تھیں۔ ان میں ایک نظم جموں کے کسی ہندو شاعر کی بھی تھی جس میں مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ’مسلمان اپنی جائے نماز سمیٹ کر عرب چلے جائیں۔ ہم وہاں پہنچ کر بھی خانہ کعبہ کی جگہ وشنو مندر تعمیر کریں گے۔‘

جیون داس نے اس کتابچے کی ایک ہزار کاپیاں چھپوائیں اور ہندوؤں کے ایک تہوار ’جنماشٹمی‘ میں تقسیم کروا دیں، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مسلمانوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔

تین ستمبر 1924 کو مولوی احمد گل اور قاضی معراج دین مسلمان مظاہرین کے ہمراہ اسسٹنٹ کمشنر پولیس ایس احمد خان کے پاس گئے اور جیون داس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

احمد خان نے کہا کہ کتابچے کو فوری طور پر ضبط کر کے جلا دیا جائے۔ دریں اثنا ہندو برادری نے تسلیم کر لیا کہ کتابچہ قابل اعتراض ہے، جس کی ذمہ دار سناتن دھرم سبھا ہے۔

ہندوؤں نے معافی مانگی لیکن کتابچہ جلانے کی مخالفت کی کیونکہ اس کے سرورق پر بھگوان کرشنا کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔

آٹھ ستمبر کو جیون داس کو ضمانت پر رہا کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت مکمل ہونے تک ضلع بدر کر دیا گیا۔

مگر مسلمان علما کو اطمینان نہیں ہوا اور انہوں نے پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیا کہ جیون داس کو بری کر دیا گیا ہے حالانکہ اسے ضمانت دی گئی تھی۔ مساجد سے علما نے مسلمانوں کی غیرت کو للکارنا شروع کر دیا۔

نو اور 10 ستمبر کو کوہاٹ میں کیا ہوا؟

ایک مقامی مولوی گل محمد نے، جنہیں دیگر دو علما شاہین شاہ اور میاں فضل شاہ کی حمایت بھی حاصل تھی، انتظامیہ کو الٹی میٹم دیا کہ اگر نو ستمبر کو صبح آٹھ بجے تک جیون داس کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو پھر مسلمان اپنی شریعت کے تحت کارروائی کریں گے۔

حاجی بہادر مسجد میں مسلمانوں نے اجتماعی طور پر حلف اٹھایا کہ اگر وہ اپنے دین کی حفاظت نہ کر سکے تو ان کی بیویوں کو طلاق ہو جائے گی۔

نو ستمبر کو تقریباً ڈیڑھ ہزار مسلمان مظاہرین ڈپٹی کمشنر کوہاٹ کے پاس گئے اور اپنے مطالبات پیش کیے۔ ہندو اس صورت حال سے خوف زدہ تھے اور اپنے تحفظ کا مطالبہ کر رہے تھے۔

مگر انتظامیہ نے توجہ نہیں دی۔ مسلمان مظاہرین ہندوؤں کے محلوں میں لاٹھیاں اور تلواریں اٹھا کر گھس گئے اور پتھراؤ شروع کر دیا۔

سب سے پہلے سردار مکھن سنگھ کے گھر کو جلایا گیا، جس کا بیٹا ایک مسلمان لڑکی کو بھگا کر لے گیا تھا۔

اس کے بعد ہندوؤں کے ایک باغ کو جلایا گیا، جس پر ہندوؤں نے مظاہرین پر گولی چلا دی۔ اس سے کئی مظاہرین زخمی ہوئے اور ایک مارا گیا جس سے مظاہرین مزید طیش میں آ گئے اور انہوں نے ہندوؤں کے گھروں، دکانوں اور مندروں کو لوٹنے کے بعد آگ لگا کر تباہ کر دیا۔

کوہاٹ میں شام سات بجے تک فسادات جاری رہے تاوقتیکہ پولیس نے مظاہرین کو منتشر نہیں کر لیا۔

اگلے روز کوہاٹ کے گردو نواح سے مزید چار ہزار کے قریب مظاہرین پہنچ گئے۔ شہر دوبارہ ہولناک فسادات کی زد میں تھا۔

ہندو اور سکھ جان بچا کر کوہاٹ شہر سے باہر ایک مندر میں پناہ گزین ہو گئے اور جو ہندو نہیں نکلے انہیں ذبح کر دیا گیا۔

کوہاٹ شہر میں لگنے والی آگ ایک ہفتے تک بجھائی نہیں جا سکی اور ہندوؤں کے گھر اور دکانیں جل کر بھسم ہو گئیں۔ ہندو کوہاٹ سے بھاگ کر راولپنڈی میں پناہ گزین ہو گئے۔

ان فسادات میں 150 لوگ مارے گئے جن میں ہندوؤں کی اموات مسلمانوں کے مقابلے میں تین گنا زائد تھیں۔

یہ فسادات انگریز دور کے بدترین فسادات قرار دیے جاتے ہیں جب صرف دو دن میں پوری ہندو آبادی شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔

کوہاٹ فسادات کے بعد افہام و تفہیم کے لیے اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے چیف کمشنر ایچ این بولٹن کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنی جس کے فیصلوں کی روشنی میں وہ ہندو جو کوہاٹ چھوڑ گئے تھے وہ جنوری 1925 میں واپس آ گئے۔

فسادات میں جن مسلمانوں کے خلاف مقدمات بنائے گئے تھے وہ ختم ہو گئے اور بدلے میں جیون داس کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ مسلمانوں نے واپس لے لیا۔

کیا ان فسادات کے پیچھے انگریز تھے؟

 تحریکِ خلافت کے دوران ہندو مسلم بھائی چارہ اتنے عروج پر تھا کہ پچھلے ایک ہزار سال میں اس کی نظیر نہیں ملتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اٹک پار کی یادیں‘ میں رام سرن نگینہ لکھتے ہیں کہ ’ہندو رہنما مسجد کے میناروں پر کھڑے ہو کر آزادی کے گیت گاتے تھے اور مسلمان رہنما مندروں میں آ کر لوگوں کو دیش کا درس دیتے تھے۔

’مندر کے درو دیوار سے اللہ و اکبر کی صدائیں گونجتی تھیں اور مسجد کے میناروں سے ہر ہر مہا دیو کے نعرے فضاؤں میں مقدس نغمے بکھیرتے تھے۔ ہندو مردوں کا جنازہ مسلمان اپنے کندھوں پر اٹھاتے تھے اور مسلمان مردوں کا جنازہ ہندوؤں کے کندھوں پر ہوتا تھا۔‘

دونوں بڑی اقوام میں اس قدر ہم آہنگی کو دیکھتے ہوئے تاجِ برطانیہ کس قدر خوف زدہ تھا اس کا اندازہ لارڈ ریڈنگ، جو 1921 سے 1926 تک ہندوستان کے وائسرائے تھے، کے ایک خط سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے برطانیہ کے سیکریٹری آف سٹیٹ کو 23 جولائی 1924 کو لکھا تھا۔

جس میں وہ لکھتے ہیں: ’گاندھی موومنٹ کامیاب تو نہیں ہو سکتی مگر اس کا ایک اثر یہ ضرور ہوا ہے کہ مسلمان دیوانہ وار حد تک ہندوؤں کے ساتھ مل گئے ہیں۔

’جس سے ہمیں سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں میں نفاق کیسے پیدا کیا جائے، میرا خیال ہے کہ یہ کام تاج برطانیہ کے لیے ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔‘

مزید لکھا: ’گاندھی تحریکِ خلافت کے حامی بن کر مسلمانوں اور ہندوؤں کے مشترکہ رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ انہوں نے وقتی طور پر مسلمانوں اور ہندوؤں کو قریب تر کر دیا مگر کوہاٹ فسادات نے گاندھی کی کوششوں کو زبردست نقصان پہنچایا، جس کے ازالے کے لیے انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بحال کرنے کے لیے 21 دن تک روزہ بھی رکھا، مگر بعد میں ایسا ممکن نہیں رہا۔

’مبصرین کا ماننا ہے کہ تحریک خلافت کا اثر دیرپا تھا۔ مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہند، قیام پاکستان اور ہندوتوا کی ابتدا جیسے اہم تاریخی واقعات کے بیج یا تو اس تحریک میں بوئے گئے تھے یا اُگے تھے۔‘

 کیا اسے محض اتفاق سمجھا جائے کہ تحریکِ خلافت کے بعد 1923 سے 1927 کے درمیان مسلمانوں اور ہندوؤں میں 88 فسادات ہوئے جن میں 400 لوگ مارے گئے اور پانچ ہزار زخمی ہوئے۔

مزید حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ یہ سب فسادات شمالی ہندوستان میں ہوئے تھے۔

مذہبی ہم آہنگی کو جو نقصان پہنچایا گیا تھا، اس کا نتیجہ تقسیمِ ہندوستان کے دوران تقریباً 20 لاکھ لوگوں کے قتل اور ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی نقل مکانی کی صورت میں نکلا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ