کیا بجٹ پاکستان کے اقتصادی مسائل کے حل کی جانب پیش رفت ہے؟

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر نے حکومت کی سوچ میں کسی تبدیلی یا جدت کا عندیہ نہیں دیا۔

12 جون، 2024 کو لاہور کی ایک مارکیٹ میں لوگ مصالحے خرید رہے ہیں۔ اسی دن پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی کے سامنے مالی سال 25-2024 کے لیے سالانہ وفاقی بجٹ پیش کیا (اے ایف پی)

معاشی ماہرین کے خیال میں بدھ کو پیش ہونے والی مالی سال 25-2024 کی بجٹ تجاویز پاکستان کے اقتصادی مسائل حل کرنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کر پائیں گی، جب کہ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی بجٹ تقریر نے وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کی سوچ میں کسی تبدیلی یا جدت کا عندیہ نہیں دیا۔

ماہر معاشیات اور پاکستان کے سابق وفاقی وزیر خزانہ سید سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ موجودہ بجٹ ایک معمول کی کارروائی ہے، جس میں 25-2024 کے دوران مالی معاملات میں کسی جدت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں عام آدمی کے لیے مراعات بہت کم ہیں، جب کہ حکومت نے اپنے اخراجات میں اضافہ ہی کیا ہے۔

’ان تمام باتوں کو سامنے رکھیں تو معلوم ہو گا کہ بجٹ میں کوئی انقلابی اقدامات نہیں لیے گئے۔

سلمان شاہ کے خیال میں پاکستان کی افسر شاہی نے اس آئندہ مالی سال کے بجٹ میں خود کو بڑی خوبصورتی سے بچا لیا۔

’صرف محکمہ پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے، جب کہ وفاقی حکومت کے بہت سارے غیر ضروری ڈویژنز اور محکموں کو اسی طرح چلایا جائے گا۔‘

پاکستان کے معاشی معاملات پر لکھنے والی صحافی ذیشان حیدر کا کہنا ہے: ’لگتا ہے یہ بجٹ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو یقینی بنانے کے ہدف کے ساتھ ترتیب دیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ کئی شعبوں پر ٹیکسز لگائے گئے ہیں، جو افراط زر کے بڑھنے کی وجہ بنے گا۔ ’ایسا یقیناً آئی ایم ایف کی شرائط کی روشنی میں کیا گیا۔‘

ان کے خیال میں صرف زیادہ آمدن والے طبقات پر ٹیکس لگانا بڑی حد تک ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے، بلکہ ہر طبقے پر اس کی آمدن کے مطابق ٹیکسز لگانا چاہیے۔

ذیشان حیدر کے خیال میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آئندہ مالی سال کے دوران فیسکل کانسولیڈیشن کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کا بہت بڑا نقصان ترقیاتی منصوبوں کے فقدان کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کے بدھ کو پیش کردہ بجٹ میں نجکاری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم تجویز نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاشی ماہر اور سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شبر زیدی کے خیال میں وفاقی وزیر خزانہ کی تقریر میں موجود اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بیوروکریسی حکومت کو ایک شرم ناک صورت حال میں ڈالنا چاہ رہی ہے۔

ان کے خیال میں 30 جون کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بجٹ اور بدھ کو وزیر خزانہ کی تقریر میں بجٹ کی تجاویز میں بہت زیادہ فرق ہو گا۔

’انہیں ان میں سے بہت سی چیزیں تبدیل کرنا پڑیں گی۔ میرا نہیں خیال کہ وزیر خزانہ کی تقریر والی تجاویز من و عن منظور کی جا سکتی ہیں۔‘

شبر زیدی کا کہنا تھا کہ بدھ کو قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہونے والا بجٹ کسی طرح بھی پاکستان کو اس کی موجودہ معاشی مسائل سے نکالنے کے قابل نہیں۔

ماہر معاشیات عزیر یونس کے خیال میں وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں بڑے بڑے اعداد و شمار کا ذکر موجود ہے لیکن ان اہداف کا حصول تقریباً ناممکن ہے۔

انہوں نے کہا: ’یہ بجٹ دیکھ کر آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی سوچ اور رویے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔‘

انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت تقسیم ہونے والی رقم میں 25 فیصد اضافہ تو ہوا لیکن اس سے زیادہ فائدہ ممکن نہیں کیونکہ گذشتہ سال کے دوران افراط زر بھی اتنا ہی رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت