پاکستان کو درپیش سنگین معاشی مسائل کے درمیان مسلم لیگ ن کی حکومت نے آج قومی اسمبلی میں اپنی موجودہ حکومت پہلا سالانہ وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا بھی یہ پہلا قومی بجٹ تھا۔ وزارت خزانہ نے بجٹ کو حتمی شکل گذشتہ دنوں میں دے دی تھی۔
شام 6 بج کر 56 منٹ
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر میں ایک سے 16 گریڈ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافے کی تجویز پیش کی ہے۔ جبکہ 17 سے 22 گریڈ کے افسران کے لیے 20 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن میں 15 فیصد اضافے کی تجویز کی گئی ہے۔
کم از کم ماہانہ تنخواہ کو 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
شام 6 بج کر 54 منٹ
انکم ٹیکس اور نان فائلرز کے خلاف اقدامات
وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران انکم ٹیکس چھوٹ چھ لاکھ روپے تک کی آمدن پر برقرار رکھنے کی تجویز پیش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے میں زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی بالائی حد تبدیل نہیں کی جائے گی تاہم غیر تنخواہ دار افراد کے زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 45 فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ٹیکس فائلرز کے لیے Immovable Properties خریدنے پر فلیٹ تین فیصد اور نان فائلرز پر چھ فیصد ٹیکس عائد کیا جائے۔ ایسے لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی آخری تاریخ پر کبھی ریٹرن فائل نہیں کرتے بلکہ جائیداد کی خریداری کے وقت ٹرانزیکشن کرنے سے پہلے ریٹرن فائل کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقررہ تاریخ تک ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کو یقینی بنانے اور نان فائلرز اور تاخیر سے ریٹرن فائل کرنے والوں کے لیے یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ تاخیر سے ریٹرن جمع کرانے والوں کے لیے تین الگ الگ نرخ متعارف کرائے جائیں گے۔
شام 6 بج کر 40 منٹ
بجٹ کے اہم خدوخال:
- اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے
- افراط زر کی شرح 12 فیصد متوقع
- بجٹ خسارہ جی ڈپی کا 5.9 فیصد
- ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 12 ہزارنو سو 70 ارب روپے ہے
- وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ سات ہزار چار سو 38 ارب روپے ہو گا
- وفاقی غیر ٹیکس آمدن کا ہدف تین ہزار پانچ سو 87 ارب روپے رکھا گیا ہے
- وفاقی حکومت کی خالص آمدنی نو ہزار ایک سو 19 ارب روپے ہو گی
- وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 18 ہزار آٹھ سو 77 ارب روپے ہے
- یہ اخراجات ان شعبوں میں ہوں گے:
- نو ہزار سات سو 75 ارب سود کی ادائیگی
- وفاقی ترقیاتی پروگرام بشمول پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروگرام کے لیے ایک ہزار پانچ سو ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا
- دفاعی ضروریات کے لیے دو ہزار ایک سو 22 کے لیے مختص
- سول انتظامیہ کے لیے آٹھ سو 39 ارب روپے مختص
- پینشن اخراجات کے لیے ایک ہزار 14 ارب روپے مختص
- بجلی، گیس اور دیگر شعبوں میں سبسڈی کے لیے ایک ہزار تین سو 63 ارب روپے مختص
- بے نظیر انکم سپورٹ، ’آزاد جموں کشمیر‘، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع، ریلوے، ہائر ایجوکیشن کمیشن، ترسیلات زر اور آئی ٹی کے شعبے کے لیے گرانٹ کا تخمینہ ایک ہزار سات سو 77 ارب روپے
- یہ اخراجات ان شعبوں میں ہوں گے:
شام 6 بج کر 30 منٹ
آئی ٹی سکیٹر کے لیے 89 ارب روپے
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس سال آئی ٹی کی برآمدات ساڑھے تین ارب تک پہنچ جائیں گی اور 2024-25 میں 89 ارب روپے سے زائد رقم مختص کی جا رہی ہے۔
یہ رقم متعدد منصوبوں پر خرچ ہو گی جن میں ایف بی آر میں ڈیجیٹل اصلاحات اور کراچی میں آئی ٹی پارک کی تشکیل بھی شامل ہیں۔
وزیر خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ حکومت نیشنل ڈیجییٹل کمیشن اور ڈیجیٹل پاکستان اتھارٹی بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
شام 6 بج کر 24 منٹ
بجلی کے شعبے میں اصلاحات
وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں بجلی کے شعبے میں نقصانات کو کم کرنے کیے لیے درج ذیل تجاویز دیں:
- مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے 9 ڈسکوز اور جینکوز کی نجکاری کو تیز کرنے کا منصوبہ ہے۔
- بجلی چوری مہم کو زیادہ منظم کیا جائے گا۔
- بجلی کی پیداوار کو مہنگے امپورٹڈ تیل کی بجائے اسے ونڈ اور سولر کی میں منتقل کیا جائے گا۔
شام 6 بج کر 19 منٹ
بے نظر انکم سپورٹ پروگرام میں 27 فیصد اضافے کی تجویز
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 2024-25 کے لیے 27 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے جس کے بعد اس کا کل حجم 593 ارب روپے ہو جائے گا۔
شام 6 بج کر 10 منٹ
پینشن نظام میں اصلاحات، خالی سرکاری اسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز زیر غور: وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر میں اعلان کیا ہے کہ حکومت پینشن کے نظام میں اصلاحات لا رہی ہے۔
محمد اورنگزیب نے یہ بھی اعلان کیا کہ وفاقی حکومت کے تمام خالی اسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر آپ براہ راست یہاں دیکھ سکتے ہیں:
شام 5 بج کر 59 منٹ
وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کا احتجاج
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن اراکین بجٹ کاپیوں سے مسلسل ڈیسک بجا کر احتجاج کر رہے ہیں جبکہ ایوان میں سارجنٹ ایٹ آرمز کو بلا لیا گیا ہے۔
شام 5 بج کر 52 منٹ
بجٹ اجلاس کا تقریبا دو گھنٹہ تاخیر کے بعد آغاز
مالی سال 2024-24 کے لیے وفاقی بجٹ پیش کیے جانے کے لیے قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغاز تقریبا دو گھنٹے کی تاخیر کے بعد ہو گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرۃ العین شیرازی اس وقت پارلیمنٹ ہاؤس میں موجود ہیں جن کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے ملاقات کے بعد پارلیمنٹ سے روانہ ہو گئے ہیں جبکہ پارٹی کے چند اراکین قومی اسمبلی ایوان میں پہنچ گئے ہیں۔
اس سے قبل پیپلز پارٹی کی جانب سے بجٹ تقریر کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا تھا۔
شام 5 بج کر 15 منٹ
وفاقی بجٹ 2024-25 وفاقی کابینہ سے منظور
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں مالی سال 2024-25 کے وفاقی بجٹ کے حوالے سے تجاویز پیش کی گئیں جنہیں منظور کر لیا گیا۔
شام 5 بج کر 5 منٹ
قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن کا آغاز چار بجے ہونا تھا تاہم ایک گھنٹہ تاخیر کے باجود بھی سیشن کا آغاز نہیں ہو سکا۔
پارلیمنٹ ہاؤس کی موجودہ صورت حال سے آگاہ کر رہی ہیں ہماری نامہ نگار قرۃ العین شیرازی۔
شام 3 بج کر 50 منٹ
قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیے جانے سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کہا کہ بجٹ میں ’اس ملک کے مزدور، کسان اور تنخواہ دار طبقے کے ریلیف کے لیے اقدامات کریں گے۔‘
سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ان کی حکومت ’ملک کو معاشی مشکلات کی منجدھار سے نکال کر استحکام کی سمت میں لائی، تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اپنی سیاست کو قربان کرکے پاکستان کی معیشت کو بچایا۔‘
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ برادرانہ ممالک اور سرمایہ کاروں کا حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد اور ملک میں بڑھتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری حکومتی ٹیم کی محنت کا ثمر ہے۔
حکومتی ڈھانچے کا حجم
اس سے قبل وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت حکومتی اخراجات اور حکومتی ڈھانچے کا حجم کم کرنے کے حوالے سے ایک اجلاس بدھ کی صبح منعقد ہوا۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق حکومتی اخراجات کم کرنے کے حوالے سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے وزیراعظم کو ابتدائی رپورٹ میں کچھ سرکاری اداروں کو بند کرنے، کئی کو ضم کرنے اور بعض کو صوبوں کے حوالے کرنے کی سفارش کی۔
ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن سربراہی میں قائم کمیٹی میں کابینہ، خزانہ، اسٹیبلشمنٹ، پاور سیکریٹریز کے علاوہ ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر فرخ سلیم اور محمد نوید افتخار شامل تھے۔ ابتدائی رپورٹ میں قلیل و وسط مدتی سفارشات پیش کی گئیں۔
کمیٹی نے سفارش کی کہ ایسی تمام اسامیاں جو ایک سال سے زائد کے عرصے سے خالی ہیں ختم کر کے قومی پیسہ بچایا جائے، نئے بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کی کنٹریبیوٹری پینشن کا نظام لایا جائے اور سرکاری اداروں میں سروسز کی فراہمی کے لیے نجی شعبے کی خدمات لی جائیں۔
حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے سرکاری اہلکاروں کے غیرضروری سفر پر پابندی عائد کرنے اور ٹیلی کانفرنسنگ کو فروغ دینے پر زور دیا۔ ایسے سرکاری افسران جو مونو ٹائیزنگ کی سہولت لے رہے ہیں ان سے سرکاری گاڑیاں فوری واپس لینے کا تجویز بھی دی۔
ان ابتدائی تجاویز کے حوالے سے وزیراعظم نے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی جو کہ دس ہفتے کے اندر جامع رپورٹ پیش کرے گی۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں قوم کے اربوں روپے کی بچت ہو سکے گی۔
اجلاس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وفاقی وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب، وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک، وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل اور متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی۔
بجٹ سے ایک دن قبل حکام نے پاکستان سٹیل کے روزمرا ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سینیئر صحافی محسن رضا نے اس بارے میں ایکس پر پوسٹ کیا۔
ناراض پیپلز پارٹی؟
البتہ مسلم لیگ ن کی بڑی اتحادی پیپلز پارٹی نے بجٹ سازی میں انہیں اعتماد میں نہ لینے کی شکایت کی تھی۔ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تاہم آج سہہ پہر منعقد ہوا۔
اس سے قبل ترجمان پیپلز پارٹی شازیہ مری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث ہوئی اور ارکان اسمبلی نے پارٹی قیادت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے جن باتوں کا معاہدہ کیا تھا اس پر عمل نہیں کیا اور بجٹ پر پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ وہ کابینہ کا حصہ نہیں بننے جا رہے۔
ادھر وفاقی بجٹ کے معاملے پر سنی اتحاد کونسل و تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی نے اسمبلی اجلاس سے قبل خیبر پحتونخوا ہاؤس میں اپنے لائحہ عمل کے بارے میں مشاورت کی۔
اجلاس میں حامد رضا، عمر ایوب، بیرسٹر گوہر، عامر ڈوگر، علی محمد اور اسد قیصر سمیت تمام اراکین اسمبلی شریک ہوئے۔
سینیٹ کا اجلاس بھی شام چھ بجے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوگا جس میں وزیر خزانہ سفارشات کے لیے فنانس بل2024 پیش کریں گے۔
جماعت اسلامی کی تنقید:
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ سود کا نظام ختم کیے بغیر ترقی نہیں کی جاسکتی ہے۔ دیگر رہنماؤں کے ہمراہ بدھ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت نے پانچ سال میں سود ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، اب تک اس کے خاتمے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات بتائے جائیں۔
جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس میں حکومتی پالیسیوں پر شدید الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت اپنے اہداف حاصل نہیں کر سکی جو کہ ناکامی ہے، زراعت کے شعبے میں جو ترقی ہوئی اس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں، حکومت نے تو زراعت کی بھی تباہی کا بندوبست کر لیا ہے۔
’جو بجٹ حکومت لا رہی ہے وہ حکومتی بجٹ نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔‘
قومی اقتصادی جائزہ:
ہر سال کی طرح وفاقی بجٹ کے پیش ہونے سے ایک روز قبل وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اسلام آباد میں رواں مالی سال کے لیے اقتصادی جائزہ رپورٹ جاری کی۔
اقتصادی جائزہ رپورٹ 2023-24 کے مطابق معاشی سرگرمیاں مثبت ہونے سے شرح نمو 2.38 فیصد رہی، جو 2022-23 میں 0.29 فیصد تھی۔
شرح نمو میں مثبت اضافے کی بڑی وجہ زراعت کا شعبہ ہے جس میں گذشتہ 19 سالوں میں سب سے زیادہ ترقی ریکارڈ کی گئی ہے۔
قومی اقتصادی جائزہ رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق زراعت کے شعبے میں 6.25 فیصد ترقی ہوئی، جو گذشتہ مالی سال 2.27 فیصد تھی۔
زراعت کے شعبے میں ریکارڈ ترقی کی وجہ بڑی فصلوں کی ریکارڈ پیداوار رہی جو 16.82 فیصد ہے۔ مالی سال 203-24 کے دوران گندم کی فصل 31 ملین ٹن رہی تھی۔
مہنگائی کی شرح:
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح 26 فیصد رہی جو کہ گذشتہ برس 28.2 فیصد تھی۔
ملک میں اپریل میں مہنگائی کی شرح 17.3 فیصد تھی، جو گذشتہ سال مئی میں 38 فیصد کی تاریخی بلندی پر پہنچ چکی تھی۔
اسی طرح مئی 2023 میں اشیا خورد و نوش کی قیمتیں 48.1 فیصد تک مہنگی ہو چکی تھی، اپریل 2024 میں کم ہو کر 11.3 فیصد تک گر گئیں۔
قرض:
اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق مارچ 2024 تک پاکستان کا مجموعی قرضہ 67 ہزار 525 ارب روپے تھا، جس میں ملکی قرضہ 43 ہزار 432 ارب جبکہ بیرونی قرضہ 24 ہزار 93 ارب روپے ہے۔
مارچ 2023 میں اس قرضے کا حجم 59 ہزار 247 ارب ڈالر تھا یعنی قرض میں آٹھ ہزار 278 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
ٹیکس:
رواں مالی سال کے لیے ٹیکس کا ہدف نو ہزاور 415 ارب روپے رکھا گیا تھا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے سات ہزار 361 ارب روپے جمع کیا گیا جو کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں 30.6 فیصد زیادہ ہے۔
گذشتہ سال پانچ ہزار 637 ارب روپے جمع ہوئے لیکن ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پورا شاید نہ ہو سکے۔