پشاور ضلع کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر نے گذشتہ ہفتے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سکول کی طالبات کو عبایا پہننے کا حکم دیا تاکہ وہ غیر اخلاقی رویوں سے بچ سکیں۔ حسبِ توقع ٹوئٹر پر ایک طوفان مچ گیا جس کے بعد پشاور انتظامیہ کو یہ نوٹیفکیشن واپس لینا پڑا۔
اگلے روز دائیں بازو کی سوچ کے حامل طبقے کی طرف سے ٹوئٹر پر ’حجاب از پروٹیکشن‘ کا ہیش ٹیگ چلایا گیا۔ ملک کے نامور مفتیانِ کرام رات بھر اس ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹویٹ کرتے رہے۔ کسی نے عورت کو لالی پاپ بنایا تو کسی نے کیلا تو کسی نے کھٹی میٹھی سی کینڈی۔ جانے کہاں کہاں سے بغیر چھلکے کے کیلے اور بغیر پلاسٹک ریپر کے لالی پاپ اور کینڈی کی تصاویر ڈھونڈی گئیں اور عورتوں کی ہدایت کے واسطے شیئر کی گئیں۔
کئی احباب نے اس ہیش ٹیگ کے ساتھ سکارف پہنی ہوئی ایسی بچیوں اور خواتین کی تصاویر بھی شیئر کیں جنہیں ریپ کرنے کے بعد گلا دبا کر یا انجیکشن لگا کر قتل کیا گیا تھا۔ یہ تصاویر اس ہیش ٹیگ پر انتہائی سخت سوال اٹھاتی ہیں جن کے جواب ان میں سے کسی مفتی کے پاس نہیں۔
ایک نامور مفتی صاحب نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس نوٹیفکیشن کو واپس لیے جانے پر شدید افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ خاتونِ اول پردہ نشین ہیں اور عمران خان ریاستِ مدینہ کے داعی۔ کیا وہ اس حرکت کا نوٹس نہیں لیں گے؟
مفتی صاحب کی اس پکار کا جواب اگلے ہی روز قصور سے تین بچوں کی لاشوں کی صورت میں ملا۔ ان تینوں لڑکوں کو قتل سے پہلے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ دو روز بعد راولپنڈی سے ایک مولوی صاحب گرفتار کیے گئے جو اپنے مدرسے کے ایک 12 سالہ طالب علم کا متعدد بار ریپ کر چکے تھے۔
میرا دل چاہتا ہے کہ اس بچے کو مفتی صاحب کے سامنے کھڑا کروں اور ان سے اس کا قصور پوچھوں۔
میرا دل یہ بھی چاہتا ہے کہ مفتی صاحب کے دفتر کے باہر ان بچوں اور بچیوں کی تصاویر آویزاں کروں جنہیں جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا اور پھر مفتی صاحب سے پوچھوں کہ یہ معصوم چہرے کیسے کسی کو جنسی ہیجان میں مبتلا کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مفتی صاحب مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ شاید وہ ان بچوں کے چہرے پر وہ کچھ دیکھ سکیں جو مجھے نظر نہیں آتا اور ہمیں بتا سکیں کہ کیسے ان بچوں نے اپنے مجرم کو اپنی طرف مائل کیا تھا۔
میرا دل چاہتا ہے کہ ان سے کوئی ایسی چادر یا عبایا مانگوں جس سے مائیں اپنے بچوں کو ڈھانپ سکیں اور انہیں درندوں کی نظروں اور ہاتھوں سے بچا سکیں۔
مفتی صاحب، اس ملک میں تو انڈس ڈولفن تک محفوظ نہیں۔ اخبار پڑھا کریں تاکہ آپ جان سکیں کہ اس کرہ ارض پر کس کس جاندار کو برقع کی ضرورت ہے اور پھر اس مطابق ٹویٹ کر سکیں۔
مفتی صاحب نے اپنی ٹویٹ میں خاتونِ اول کے پردہ نشین ہونے کا ایسے ذکر کیا ہے جیسے وہ چاہتے ہوں کہ ملک کی خواتین کا لباس خاتونِ اول کے لباس کے ساتھ تبدیل ہوا کرے۔ یہ والی خاتون عبایا پہنتی ہیں تو سب خواتین عبایا پہننا شروع کر دیں۔ اگلی خاتونِ اول بغیر آستین کے بلاؤز کے ساتھ ساڑھی پہنتی ہوئیں تو تمام خواتین فوراً عبایا ترک کر کے ویسی ہی ساڑھیاں پہننا شروع کر دیں۔ ہم تو ڈرتے ہیں کہ کبھی کوئی ایسی خاتون آ گئیں جو منی سکرٹ اور شارٹس پہنتی ہوئیں تو تب مفتی صاحب کیا فرمائش کریں گے؟
اے کاش مفتی صاحب سمجھ سکیں کہ ہراسانی کا تعلق لباس سے نہیں بلکہ سوچ سے ہے جو ان جیسے لوگ اپنی ٹویٹس اور خطبوں سے بناتے ہیں۔
خاتونِ اول بشریٰ بی بی اپنی مرضی سے عبایا پہنتی ہیں۔ ہم ان کی اس مرضی کا احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے عبایا نہ پہننے کا بھی بالکل ایسے ہی احترام کیا جائے۔ قرآن بھی صرف پردہ دار عورتوں کی عزت کرنے اور پردہ نہ کرنے والیوں کا ریپ کرنے کا حکم نہیں دیتا، مفتی صاحب سے بہتر یہ کون جانتا ہوگا۔
اس صدی میں عورت کو کم از کم اپنی مرضی کے کپڑے پہننے کی آزادی مل جانی چاہیے۔ اب چاہے کسی نے عبایا پہننا ہو یا فراک۔۔۔ یہ اس کی مرضی ہے۔ دونوں کی طرف میلی نگاہ اٹھا کر دیکھنے والے کے لیے سخت سزا مقرر ہونی چاہیے۔
جہاں پوری دنیا آگے اور آگے کی طرف بڑھ رہی ہے، ہم پیچھے کا سفر کر رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ملا ہیں۔ ان ملاؤں کو اسلام میں عورت کے پردے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا حتیٰ کہ اپنا پردہ بھی نہیں۔
رہی سہی قصر ہمارے کچھ سینئیر صحافی پوری کر دیتے ہیں، جو ان ملاؤں سے دس قدم آگے چلتے ہوئے چیخ چیخ کر جانے کس ثقافت کو بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب ذہن ہی بیمار ہوجائے تو ہزار پردے بھی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتے بلکہ حیوانیت سے بھی اگلے درجے پر لے جاتے ہیں۔
ہمیں اپنی عورتوں اور بچوں کے لیے عبایا کی نہیں بلکہ مردوں کے لیے کچھ شرم اور بہت ساری تعلیم کی ضرورت ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ درسی کتابوں میں سیکس ایجوکیشن پر مضامین شامل کرے اور ملک بھر میں جنسی ہراسانی اور اجازت کے بارے میں مہم چلائے اور حجاب کو پروٹیکشن سمجھنے والے خود کو خواتین اور چھوٹے بچوں سے 100 فٹ کے فاصلے پر رکھیں، تبھی ہم اس ملک میں اپنے بچوں اور خواتین کو زندہ دیکھ سکیں گے۔