وہ عوامل جو ماضی میں زمین پر حیاتیاتی فنا یا خاتمے کا باعث بنے وہ آج بھی ایک مرتبہ پھر بڑی سرعت کے ساتھ نمودار ہو رہے ہیں۔ ماہرین جو فوسل ریکارڈ پر تحقیق کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اب سوال یہ نہیں کہ کیا ایسا ہوگا بلکہ سوال یہ ہے کہ کرہ ارض پر حیاتیاتی فنا کا سلسلہ کب تک مکمل ہو سکتا ہے اور ہم میں سے کتنے بچ جائیں گے۔
حشرات الارض کی آبادی میں حیرت انگیز کمی سے لے کر جنگلات کی تباہی، سمندری درجہ حرارت میں شدید اضافے کے باعث سمندری نباتات کا خاتمہ سبھی اس بات کے شواہد ہیں کہ اب ہم کرہ ارض کی چھٹی بڑی معدومیت کے دور سے گزر رہے ہیں جو ہفتہ وار تواتر سے آشکار ہو رہی ہے۔
رواں سال مئی میں اقوام متحدہ کی ایک تاریخ ساز رپورٹ کے مطابق سمندری و نباتاتی حیات جس رفتار سے ناپید ہوتی جا رہی ہے، انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور تقریباً دس لاکھ انواع کی سمندری و نباتاتی حیات اس خاتمے کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ اس خاتمے کی رفتار پچھلے ایک کروڑ برسوں کے مقابلے میں اوسطاً دس سے سو گنا تک اضافے کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے اور مزید بڑھتی جا رہی ہے۔
فوسل ریکارڈ کی معدومیت کے واقعات کو اگر مدنظر رکھا جائے تو بلاشبہ ماحولیاتی نظام کا موجودہ زوال بھی بڑے پیمانے پر ہونے والی تباہی سے کم نہیں۔
جنوبی افریقہ کے قومی عجائب گھر کی سائنسدان اور معدومیت کی ماہر جینیفر بوتھا کا ماننا ہے کہ ’معدومیت کا عمل کرہ ارض پر مستقل جاری رہتا ہے، لیکن جب یہ حد سے تجاوز کرنے لگتا ہے تو ہم اسے بڑے پیمانے کی معدومیت قرار دیتے ہیِں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’سمندری و نباتاتی حیات آج تیزی سے خاتمے کی جانب رواں ہے اور اسے ماضی کی معدومیت سے جوڑنا ممکن نہیں اور اس کا سبب صرف موسمیاتی تبدیلی نہیں بلکہ یہ بھی مان لینا چاہیے کہ معدومیت کی بڑی وجہ اس حیاتیاتی نظام میں موجود زندگیوں کا اپنے مسکن سے جدا ہو جانا ہے۔‘
گذشتہ ساڑھے 55 کروڑ برسوں کے دوران بڑے پیمانے پر معدومیت کے پانچ ادوار سے ارضیات کے نظام پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
فوسل ریکارڈ کے مطابق ان اثرات کو نمبروار دیکھا جا سکتا ہے جیسا کہ پودوں اور جانوروں کی اقسام میں فوری کمی اور نئی اقسام کا فوری نمودار ہونا، اسی دوران قدیمی چٹانوں میں ارض کیمیاتی اور دھات کاری کے نظام میں تبدیلی سے آتش فشاں کا ابل پڑنا اور مون سون کے غیر متوقع سائیکل سے بھی نطام ارضیات متاثر ہو سکتا ہے۔
ایڈنبرا یونیورسٹی کے ماہر رکازیات پروفیسر سٹیو بروساتے سے جب یہ دریافت کرنا چاہا کہ اس وقت جو کچھ معدومیت کے حوالے سے ہو رہا ہے، اسے محفوظ کردہ پتھروں سے اخذ کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ان محفوظ شدہ آثار سے ماضی کی تشریح ملتی ہے اور یہ ہمارے کام کا حصہ ہے۔
پرفیسر بروساتے نے اس مضمون کی لکھاری صحافی ایشلی کوٹس کو بتاتے ہوئے کہا کہ یہ وہ آثار ہیں جن کے مسودے ہم ماضی کی تحقیق کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس طرح ایک تاریخ دان یا جاسوس کسی گتھی کو سلجھانے کے لیے اس دوران رونما ہونے والے واقعات سے مدد حاصل کرتا ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ جب ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیاں واقع ہو رہی تھیں تو اس وقت کے پودوں اور جانورں نے کس طرح حالات کا سامنا کیا تھا اور اس طرح ہمیں معدومیت کے کچھ مخصوص ادوار کے بارے میں ٹھوس شواہد مل سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انواع و اقسام کے فوسل یا حجریات جو بڑی تعداد میں دستیاب بھی ہیں اور جدا جدا بھی ہیں اور ایسے نقوش بہت مضبوط ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دیکھا جائے تو ماضی کی بہت سی تشریحات وہ ہیں جن سے ہم آج واقف ہیں، جن میں سمندری سطح کا کم ہونا، موسمی تبدیلی (جن میں موسموں کا سرد و گرم ہونا) دونوں شامل ہیں اور شہاب ثاقب کی ضرب وغیرہ یہ سب وہ شواہد ہیں جو ماضی کی حیاتیاتی معدومیت کو ثابت کرنے میں معاون ہیں جبکہ دیگر تشریحات ابھی اتنی اچھی طرح نہیں سمجھی جا سکتی ہیں۔
’کلیتھریٹ گن ہائپوتھیسس‘ 2008 میں کی جانے والی وہ تحقیق ہے، جس میں یہ جانا جا سکا کہ سمندری سطح کے اتار چڑھاؤ کے موسمی درجہ حرارت پر جو اثرات ہوتے ہیں، ان سے سمندری فرش سے میتھین گیس کا اخراج ایسے ہوتا جیسے بندوق سے گولیاں نکلنی شروع ہو جائیں اور یاد رہے کہ یہ عمل جب بھی ہو گا عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ میں تیز رفتاری کا باعث ہوگا۔
معدومیت کے گذشتہ پانچ ادوار میں ’پرمیئن پیریڈ‘ کے اختتامی دور کی معدومیت اب تک کی سب سے جان لیوا معدومیت تھی۔ اسی طرح دو کروڑ برس پہلے ہونے والی ٹرائزک نامی معدومیت ہمیں یہ جاننے میں مدد دیتی ہے جو آج اس حوالے سے ہو رہا ہے۔
ان دونوں کے رونما ہونے کی وجہ آتش فشاں پھٹنے سے اچانک عالمی حدت میں اضافہ تھا۔ جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوا اور ماحول گرم ہوتا چلا گیا۔
بروساتے کے مطابق ’پرمئین اور ٹرائزک‘ ادوار کے اختتام پر پیش آنے والے واقعات اور موجودہ دور کے حالات میں بہت مشابہت پائی جاتی ہے۔
ایک مکتبہ فکر اس خیال کا بھی ہے کہ اگر یہ معدومیت کئی ہزار برس پر محیط ہوتی تو آج کا موحولیاتی نظام اس قدر غیرمستحکم نہ ہوتا۔
’حتی کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پرمیئن اور ٹرائزک دور کے اواخر میں بھی عالمی درجہ حرارت اس تیز رفتاری سے نہیں بڑھ رہا تھا۔ آج ہم نے ماحولیاتی بدلاؤ کو جس سطح پر پہنچا دیا ہے اس کے سبب عالمی درجہ حرارت کچھ ہی برسوں، دہائیوں اور صدیوں میں ایک نا قابل یقین عروج پر پہنچ گیا ہے۔‘
’اسی بنا پر ہمیں توقف سے کام لینا ہو گا۔‘
پرمیئن دور کی بڑے پیمانے پر معدومیت سے ارضیاتی تاریخ کا ’پیلیو زوئیک‘ دور ختم ہوا اور ’میسوزوئیک‘ دور کی ابتدا ہوئی جس میں ڈائنوساروں کا غلبہ تھا۔ پرمیئن دور کے اختتام اور ٹرائزک دور کی شروعات میں انتہائی وسیع پیمانے پر معدومیت کے عمل نے 90 فیصد حیاتیات کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ 96 فیصد سمندری حیات ناپید ہوگئی۔ ان میں فوسل ماہرین کی من پسند قسم ٹرائیلوبائیٹس بھی شامل تھیں۔ یہ فوسل اس سے قبل ادوار میں باآسانی مل جاتے تھے۔‘
اسی دوران نئی انواع و اقسام کی حیاتیات بڑی کامیابی سے پروان چڑھ رہی تھیں۔ جن میں سے کئی کو آج ہم بخوبی پہچانتے ہیں۔ ارضیاتی سائنس کی چائنا یونیورسٹی کے دو ماہرین یونگ ژیان چینگ اور برسٹل یونیورسٹی کے مائیکل بینٹن کی ایک تحقیق کے مطابق ماضی کے اس دور کے صرف دو فیصد گھونگھے اور تین فیصد سکوئیڈ بچ پائی تھیں۔
(اکسٹینشن ریبیلین یا معدومیت کے خلاف بغاوت ایک بین الاقوامی تحریک ہے جو عدم تشدد پر مبنی سول نافرمانی تحریک کے ذریعے دنیا کو خاتمے سے بچانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے کارکنوں نے نیچرل ہسٹری میوزیم، لندن میں گذشتہ اپریل آٹھ دن تک احتجاج کیا تھا۔ اے ایف پی
پرمیئن دور کا ایک اہم پہلو اسی دور کے کیڑے مکوڑوں کے انجام سے جڑا ہے۔ زیادہ تر کیڑے مکوڑے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’ابھابیوں یا ایمفیبیئنز‘ اور رینگنے والے جانوروں کی نسبت معدومیت سے بچ نکلتے ہیں۔ ان کو بڑی تعداد میں بھی زندہ رہنے کے لیے کم وسائل درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ یے کہ حشرات الارض کی صرف 57 فیصد اقسام معدوم ہوئیں جبکہ دیگر جیوت رہیں۔ موجودہ زرعی سرگرمیوں کے باعث ان کی تعداد میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔
یہ انہی مسائل کا ایک انتہائی پریشان کن پہلو ہے جنہوں نے ماحولیاتی نظام کو کھوکلا کر دیا ہے۔ اسی حوالے سے بوتھا برنک کا کہنا ہے کہ موجودہ ماحولیاتی نظام کی کمزوری میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اتار چڑھاؤ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج ہمیں جس بڑھتی ہوئی عالمی حرارت کا سامنا ہے اس کے باعث بارشوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جانوروں کے لیے خود کو ان غیر متوقع طور پر بدلتے ہوئے موسموں کے مطابق ڈھالنا دشوار گزار ہے اور اسی لیے وہ بتدریج معدومیت کا نوالہ بن رہے ہیں۔ یہ حالات پرمیئن دور کی معدومیت سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ایک مفروضے کے مطابق پرمیئن دور نے اپنی سست رفتاری کی بنا پر زمین پر دوررس اثرات مرتب کیے جبکہ ماضی میں یہی عمل طویل عرصے میں مکمل ہوتا تھا۔
ابھی تک جس نظریے پر تمام ماہرین متفق ہو سکے ہیں، وہ یہ ہے کہ ایک وسیع پیمانے پر آتش فشاؤں کے پھٹنے سے معدومیت کے عمل میں بیش بہا اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سائیبیرین ٹریپس نامی 30 لاکھ مربع میل اراضی پر محیط پرمیئن دور کا ’بیزالٹ‘ پتھر اسی مہلک عمل کا ایک بڑا ثبوت تھا اور پروفیسر بروساتے کے مطابق ہمارے پاس اب اس دور کے صرف پتھر ہی رہ گئے ہیں۔ ان پتھروں سے اس دور کی کیمیائی تبدیلیوں کا سراغ لگایا تو جا سکتا ہے لیکن ہم ماضی میں جتنا پیچھے جاتے ہیں ہمارے اندازے اتنے ہی کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس ترتیب وار ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ پھر ہم انہی شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے تفصیلی وضاحتیں تشکیل دیتے ہیں۔
پروفیسر بینٹن جو پرمیئن دور کی معدومیت کے حوالے سے ماہر مانے جاتے ہیں اور جو ’وین لائف نیئرلی ڈائیڈ‘ کے مصنف بھی ہیں، (یہ معدومیئت اب تک کی سب سے بڑے پیمانے پر ہونے والی معدومیت مانی جاتی ہے)، انہوں نے صحافی ایشلی کوٹس کو بتایا کہ ’جب میں نے فیلڈ میں جا کر اس سلسلے میں کام کرنا شروع کیا تو لوگ اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ سب سے بڑے معدومیت کے واقعات کون سے ہیں اور کیا یہ سب ایک وجہ سے رونما ہوئیں یا ان کی وجوہات علیحدہ تھیں۔‘
’گذشتہ کچھ برسوں میں لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ پرمیئن اور ٹرائزک دور کی بہت سی معدومیتیں آتش فشاں پھٹنے سے ہوئی تھیں اور جن میں وہ بڑے واقعات بھی شامل ہیں جو ان ارضیاتی ادوار کے اختتام پر عمل میں آئے۔ ہمارے پاس اب اچھے خاصے تفصیلی ماڈل موجود ہیں جو ان دونوں تاریخی ادوار پر کام میں مدد گار ہیں۔‘
پروفیسر بینٹن کو موجودہ دور اور ماضی پر کام کرنے سے جو مماثلتیں پتہ چل سکی ہیں وہ ان پر قطعی دو رائے نہیں رکھتے۔ زمین پر پرمیئن اور ٹرائزک ادوار معدومیتوں کے وہ دور ہیں جب کرہ ارض پر زندگی بالکل ختم ہو چکی تھی اور اسے مکمل طور پر دوسرا جنم لینے میں دس کروڑ سال لگے۔
میتھین اور کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں اضافے اور اس سے درجہ حرارت پر مرتب ہونے والے اثرات سے ہم آج واقف ہیں۔
پرفیسر بینٹن مزید بتاتے ہیں کہ ’ہم آج جو تیزابی بارش، سمندر کی تیزابیت اور جو گرمی اوربحری حوض کے جمود کو دیکھ رہے ہیں، صاف ظاہر ہے کہ وہ اس سے قبل بھی ہو چکا ہے۔ لوگ اکثر یہ بھی کہتے ہیں کہ جو اس وقت زمین پر حیاتیاتی عمل کے حوالے سے ہو رہا ہے، اگر یہ ہزاروں برس پر پھیلا ہوتا تو اسے سنبھالا جا سکتا تھا، لیکن درحقیقت یہ اس وقت بڑی سرعت اور دباؤ کے ساتھ ہو رہا ہے۔‘
پروفیسر بینٹن اس بارے میں کافی تفصیل سے بتاتے ہیں کہ پچھلے 55 کروڑ سالوں میں کئی معدومیتیں رونما ہوئی ہیں لیکن جس کی طرف تمام ماہر رکاضیات اشارہ کرتے ہیں اور جو ان سب میں مقابلتاً سب سے تباہ کن مانی جاتی ہے وہ پرمیئن ہے۔ جو زمین پر زندگی کے خاتمے میں 90 فیصد ملوث پائی جاتی ہے۔ ایشلی کوٹس نے اس پر پروفیسر بینٹن سے پوچھا کہ اگر وہ اس سے خوفزدہ ہوں؟ وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ سب ٹھیک نہیں ہے، لیکن ہم پلنگ کے سرہانے بیٹھ کر کانپ تو نہیں سکتے اور اگر بڑے پیمانے پر بات کی جائے تو بڑے جانداروں کو چھوٹوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ماہر عمومی ماہر خصوصی کے مدمقابل آ جائے اور یہ صلاحیت رکھتا ہو کہ کسی بھی انواع کے ماحول اور درجہ حرارت میں زندہ رہ سکے اور یہ میرے لیے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔‘
ان کے بقول: ’کرہ ارض کے علوم اور ماحولیاتی علوم کے ماہر و محقق اس صورت حال کے ماضی و حال کے درمیان ایک گہرا تعلق دیکھتے ہیں اور اس سلسلے میں جتنی بھی تشریحات کی گئی ہیں ان سے ہم سب متفق ہیں۔‘
گو کہ پرمیئن دور کی معدومیت نظام میں تنوع کے حوالے سے ثابت ہوئی ہے۔ جب کہ سب سے ذیادہ شہرت پانے والی حیاتیاتی تباہی، 66 کروڑ سال قبل ہونے والی ’عصر چاکی‘ کو تسلیم کیا جاتا ہے، یہ وہ دور تھا جس میں کرہ ارض سے مختلف اقسام کے تین چوتھائی جانور اور پودے اچانک خاتمے کا شکار ہوئے اور ہم میں سے زیادہ تر ماہرین یہ بھی جانتے ہیں کہ اس دوران عالمی سطح پر جس طرح کا حیاتیاتی بحران دیکھا گیا وہ اپنے ساتھ پرواز نہ کرنے والے ڈائنا ساروں کے خاتمے کا باعث بھی بنا۔
سب سے پہلے 1980 لوئیس الواریزاور ان کے بیٹے والٹر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ تقریباً چھ سے نو میل چوڑے ایک سیارچے نے زمین پر اس جگہ ضرب لگائی جہاں آج میکسیکو کا ’یوکاٹن پیننسولا‘ ہے اور اس کے باعث 150 میل چوڑے آتش فشاں کے دہانے کا منہ کھلا اور جس سے زمین کی 75 فیصد زندگی ناپید ہو گئی۔ ڈائنا ساروں سمیت بہت سے اڑان بھرنے اور پانی میں رینگنے والے جانور بھی زمین بوس ہوگئے، جو کروڑوں برسوں سے حیاتیاتی نظام کا حصہ تھے۔
پروفیسر بروساتے کہتے ہیں کہ زندگی کے اچانک اس خاتمے میں ہوسکتا ہے کہ ہمارے لیے’آج کوئی سبق ہو۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ڈائنا سار ہر ممکن طرح سے زمین پر غالب تھے۔‘ وہ اپنی کتاب ’دی رائز اینڈ فال آف ڈائنا سار‘ کے اختتام میں لکھتے ہیں کہ بعض تو ہوائی جہاز سے بھی بڑے تھے وہ زمین پر فروغ پزیر تھے اور پوری دنیا پر ان کا بسیرا تھا اور پھر وہ غائب ہو گئے خاص اسی وقت جب آسمان سے ایک سیارچہ زمین کی طرف آیا۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’ڈائنا سار بہت لمبے عرصے تک زمین پر موجود رہے اور موسمی تبدیلی کے ساتھ وہ اچانک نظروں سے اوجھل ہوئے۔ ڈائنا ساروں نے شاید سیارچے کو زمین کی طرف آتے تو نہ دیکھا ہو، لیکن ہم بڑی حد تک اپنے خاتمے کے خود ذمہ دار ہیں۔‘
’ان کی جگہ اس ماحولیاتی نظام نے لے لی، جس میں ہمیں بھی شامل ہونا ہے، ہم اس زمین کی تاریخ کا حصہ ہیں اور ہم بھی ہمیشہ یہاں نہیں رہیں گے۔‘
اگر موجودہ معدومیت اسی طرح جاری رہی تو وہ کون سی حیاتیات ہوں گی جو بچ پائیں گی؟ دیکھا گیا ہے کہ پرمیئن اور کریٹیشیئس ادوار میں چھوٹے چھوٹے جانوروں کے بچنے کے امکانات بہتر تھے۔ ان میں انواع واقسام کی خوراکوں پر زندہ رہنے کی صلاحیت تھی۔ جانوروں اور پودوں کی بہت سی مختلف اقسام کو ان نو آباد کار اجناس نے جنم دیا جو ڈائنا سور کے دور میں موجود چھوٹے جانوروں کی طرح زمین پر غالب نہیں تھیں۔ لیکن ان حیاتیات نے بہت فروغ پایا۔
پاکستان میں تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز پر مشتمل شمالی علاقاجات میں سیلاب سے کھڑی فصلیں، سڑکیں اور پل تباہ ہوتے جا رہے ہیں۔ (حرا علی)
بینٹن ہمیں بتاتے ہیں کہ ’معدومیت کا خدشہ چھوٹے جانوروں کی نسبت بڑوں کو زیادہ ہوتا ہے۔ محض یہ اپنے حجم کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ ان کی تعداد کم اور خوراک مخصوص ہوتی ہے۔‘
’تو گویا معدومیت سے محفوظ رہنے کا دارومدار اس پر ہے کہ کیا ایک جانور مختلف خوراکوں اور مختلف اقسام کے مسکن میں زندہ رہ سکتا ہے اور درجہ حرارت میں کتنی ہی تبدیلی باسانی جھیل سکتا ہے۔ وہ اجناس انسانی آبادیوں کے معرض وجود میں آنے سے معدومیت کا شکار ہوئیں جو صرف مخصوص جغرافیائی حالات میں زندہ رہ سکتی تھیں۔‘
’جو حیاتیات پرمیئن دور کی معدومیت کا شکار نہ ہو سکیں وہ ہر طرح کے موسمی اور ماحولیاتی جھٹکے کو سہنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘
لیکن ہم انسانوں کا کیا انجام ہوگا اس بارے میں کوئی بھی رائے دینا قبل از وقت ہوگا۔ گو کہ انسانی آبادی ایک وسیع و عریض رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی تعداد بھی ان گنت ہے تاہم ماہرین معدومیت پرامید ہیں کہ زمین پر وجود کچھ حد تک باقی ضرور رہ جائے گا۔
پرمیئن اور کریٹیشئس ادوار معدومیت کی طرح موجودہ دور معدومیت سے کرہ ارض کی جغرافیائی تاریخ میں ایک نئے عہد کا آغاز ہو گا اور اس نئے عہد کو ’اینتھروپوسین‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اینتھروپوسین کے موضوع پر سائنسدانوں اور مورخین کے درمیان تنازع پایا جاتا ہے کہ اس دور کی ابتدا کب ہوئی۔ مورخین کا اشارہ اس وقت کی جانب ہے جب صنعت کاری کی شروعات ہوئی اور انسانی آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔
جب کہ سائنسدانوں کا اشارہ ماحولیاتی شواہد کی طرف ہے۔ کئی برسوں کی طویل بحث کے بعد ورکنگ گروپ فار دی اینتھروپوسین نے بلآخر 1950 کو وہ سال قرار دیا کہ جس میں ’ہولوسین‘ ختم ہوا اور موجودہ عہد کی شروعات ہوئی۔
انسانی سرگرمیوں سے ارضیات پر مرتب ہونے والے اثرات سائنسی حلقوں میں آج بھی زیر بحث ہیں۔ لیکن اس نظریے پر سب متفق نظر آتے ہیں کہ آج بڑے پیمانے پر معدومیت جاری ہے اور اس تشویشناک صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں اس کی مناسبت سے اقدامات کرنے ہوں گے۔
معدومیت کے ادوار کی تاریخ کے عوامل موجودہ دور میں ہماری سوچ سے کہیں بڑھ کر پیش آ رہے ہیں۔ فوسل ماہرین کی تحقیق سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ یہی وہ لمحہ فکریہ ہے کہ اب ہمیں کرہ ارض پر اپنے وجود کا دفاع کرنا ہوگا تاکہ ہم اس انجام تک نہ پہنچیں جو ماضی ڈائناساروں کا مقدر بنا۔
© The Independent