سچے واقعات اور شخصیات پر فلمیں، کہاں تک کامیاب؟

ایک عام رائے یہ ہے کہ اس نوعیت کی فلموں میں زیادہ سر کھپانا نہیں پڑتا۔ واقعے یا کردار کی کامیابی کی داستان سامنے ہوتی ہے، بس سکرین پلے لکھنے کے بعد سارا کام پروڈکشن ٹیم اور ہدایت کار کا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح منتخب اداکاروں سے کام لے کر اسے پرکشش بنائیں۔

کنگنا رناوٹ کی فلم ’ایمرجنسی‘ کا پوسٹر، جس میں وہ سابق انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کا  کردار ادا کر رہی ہیں (مانیکرنیکا فلمز)

کیا بالی وڈ میں کہانیوں کا فقدان ہے؟ یا پھر سٹوری رائٹرز کے پاس نت نئے آئیڈیاز ختم ہو چکے ہیں؟ یہ سوال اس وقت اور زیادہ شدو مد سے گردش کرتے ہیں جب یہ معلوم ہو کہ بالی وڈ والے اب کسی حقیقی واقعے یا پھر کردار پر فلم بنانے میں مصروف ہیں۔

ذرا کاغذ قلم نکالیں اور گذشتہ کم از کم چار سال کی بالی وڈ فلموں کی ایک فہرست بنائیں تو کئی ایسی فلمیں سامنے آئیں گی جو کسی واقعے یا جیتے جاگتے کردار کی عکاسی کر رہی ہیں جیسے سنجو، دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر، ٹھاکرے، مجیب، تراسی، مودی، دنگل، منٹو، رئیس اور گنگو بائی کاٹھیاواڑی۔

اسی طرح مختلف واقعات پر فلموں کی تخلیق تو عام سی بات ہوگئی ہے۔ پھر ان واقعات کو بالخصوص ایسے واقعات جن میں مودی سرکار کے بیانیے کی تشہیر ہو، اسے حقیقت کے برعکس کرکے پیش کیے جانے کی عادت بھی جڑ پکڑ چکی ہے۔

شخصیات پر مبنی فلمیں آسان ہیں؟

ایک عام رائے یہ ہے کہ اس نوعیت کی فلموں میں زیادہ سر کھپانا نہیں پڑتا۔ واقعے یا کردار کی کامیابی کی داستان سامنے ہوتی ہے، بس سکرین پلے لکھ کر اسے نکھارا جاتا ہے۔ اب سارا کام پروڈکشن ٹیم اور ہدایت کار کا ہوتا ہے وہ کس طرح منتخب اداکاروں سے کام لے کر اپنی تخلیق کو اور زیادہ پرکشش بنائیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کہانی نویس یا سکرین پلے رائٹرز کو ڈرامائی موڑ بنا بنایا ملتا ہے، اسی لیے اسے اس میں بھی زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ المیہ یہ بھی ہے کہ اب کوئی خواجہ احمد عباس، گلشن نندا، اختر مرزا،  سلیم جاوید، قادر خان یا گرودت جیسے پائے کے کہانی نویس تو نہیں رہے اسی لیے جو دستیاب ہوتا ہے وہی یہ کام کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے بلکہ اب تو خود ہدایت کار ہی سکرین پلے رائٹر کا روپ دھارے بیٹھے ہیں۔

اسی تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ رائٹرز کی قلت کی وجہ سے بھی اس راستے کا انتخاب کیا جا رہا ہے بلکہ سنجیدہ فلم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے آپ دھن بنا لیں اور اس پر الفاظ بٹھائیں۔ رائٹرز کو ان کی مطلوبہ صورت حال مل جاتی ہے، جس کے بعد ان کے لیے اس پر کہانی بٹھانا انتہائی آسان ہوتا جاتا ہے۔

موثر پراپیگنڈا ہتھیار

جب سے مودی حکومت بنی ہے، ان کے دور میں کئی تاریخی واقعات کے اصل حقائق مسخ کرکے یا پھر توڑ مروڑ کر پردہ سیمیں کی زینت بنتے چلے آرہے ہیں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ان تخلیقات کے ذریعے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جائیں یا پھر اپنے بیانیے کو فروغ دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب ایک بار پھر جب نریندر مودی وزیراعظم کا عہدہ حاصل کرچکے ہیں تو سنجیدہ اور باشعور حلقوں کو یہی تشویش ہے کہ اگلے پانچ سال کے دوران اب بیشتر تاریخی مسلم کرداروں، بادشاہوں یا پھر مودی مخالف شخصیات کی کہانیوں اور پھر ان کے کارناموں اور فتوحات کو غلط رخ دے کر انڈین فلم بینوں کے ذہنوں کو تبدیل کیا جائے گا۔

کنگنا رناوٹ کی فلم ’ایمرجنسی‘ اس کی تازہ مثال ہے جس میں وہ سابق انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ فلم کا ٹریلر انڈین انتخابات سے پہلے منظر عام پر آیا، جسے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جےپی) نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کنگنا رناوٹ اس فلم کی ہدایت کارہ بھی تھیں جن کی اس  ’مدد‘ کا صلہ انہیں لوک سبھا کا ٹکٹ ملنے اور پھر اس کا رکن منتخب ہونے کی وجہ سے مل چکا ہے۔

ماضی قریب میں نمائش پذیر ہونے والی ’ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ کو بھلا کون فراموش کرسکتا ہے، جو من موہن سنگھ کی زندگی پر مبنی تھی، جس کے ذریعے یہ تاثر اجاگر کیا گیا کہ درحقیقت من موہن سنگھ کی اپنی کوئی سوچ نہیں تھی بلکہ وہ سونیا گاندھی کے اشاروں پر حرکت کرنے والے وزیراعظم تھے۔ یہی کچھ فلم ’اڑی دی سرجیکل سٹرائیک‘ میں اڑی واقعے کو توڑ مروڑ کر کے پیش کیا گیا۔

ولولہ اور جوش بڑھانے والی فلمیں

کچھ ایسی بھی تخلیقات ہیں جنہوں نے ہر کسی کے دل میں ایک نیا عزم اور جوش بھی بھرا ہے۔ ان میں حال ہی میں نمائش پذیر ہونے والی ’بارہویں فیل‘ نمایاں ہے۔ اس میں ایک ایسے نوجوان کی داستان پیش کی گئی تھی جس نے نامساعد حالات اور واقعات کے باوجود مقابلے کے امتحان میں قسمت آزمائی اور پھر اس کی محنت رنگ لائی اور وہ آئی پی ایس یعنی انڈین پولیس سروس میں بڑے عہدے پر پہنچتا ہے۔ یہ سچی کہانی منوج کمار شرما کی تھی۔

انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق اس فلم نے نوجوانوں کے اندر یہ جذبہ بیدار کیا کہ کسی بھی مرحلے پر ہمت اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا، بس مسلسل محنت ہی کرتے رہنا ہے، یعنی کچھ حقیقی کردار اور واقعات انسانی زندگی پر مثبت اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔

اس فلم کی کامیابی کے بعد اب دوسرے فلم ساز ایسی ہی شخصیات کو ڈھونڈ رہے ہیں، جنہوں نے مشکلات کے پہاڑ پار کیے اور زندگی کے ایک موڑ پر انہیں کامیابی اور کامرانی ملی۔ اب ان ہی پر دھڑا دھڑ فلمیں بنانے کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ بالی وڈ جہاں بھیڑچال عام ہے، وہاں سچے واقعات اور شخصیات پر فلموں کا رحجان کس مقام پر جا کر اپنا اثر کم کرے گا؟ 

پاکستان میں واقعات اور شخصیات پر فلمیں مشکل میں

بالی وڈ کے برعکس پاکستان میں اس نوعیت کے موضوعات اور شخصیات پر ایک تو فلمیں بنائی نہیں جاتیں اور اگر تخلیق کے مراحل سے گزریں بھی تو ان کی راہ میں رکاوٹیں ہی کھڑی ہوتی ہیں۔

 90 کی دہائی میں جب ہدایت کار جمیل دہلوی نے بانی پاکستان محمد علی جناح پر فلم ’جناح‘ بنانے کا اعلان کیا تو ابتدا سے ہی یہ مشکلات میں گھری رہی۔ اعتراض یہ بھی ہوا کہ ڈریکولا کا کردار ادا کرنے والے کرسٹوفر لی کو اتنے اہم اور مرکزی کردار کے لیے کیوں منتخب کیا۔ ایسا ہی کچھ اعتراض اندرا ورما پر بھی اٹھایا گیا۔

اسی طرح 100 بچوں کے قاتل جاوید اقبال پر فلم ’جاوید اقبال: دی اَن ٹولد سٹوری آ سیریل کلر‘ بھی مکمل تو ہو چکی ہے لیکن نمائش بار بار پابندیوں سے گزر رہی ہے۔ خیر اس ضمن میں کچھ اور مثالیں بھی ہیں۔ یہاں یہ باور کروانا ضروری ہوگا کہ پاکستانی فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو بھی عرق ریزی اور ہمت کرکے چبھتے ہوئے موضوعات کو اپنی تخلیقات کا حصہ بنانا ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم