نیلم جہلم ہائیڈرو منصوبہ کئی بار کیوں عارضی طور پر بند ہوا؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 969 میگا واٹ کا پن بجلی منصوبہ ’نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ‘ تکنیکی خرابی کی باعث تین ماہ سے بند پڑا ہے۔

گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار پاکستان اس وقت گرمی کی شدید لہر سے متاثر ہے۔ شدید گرمی کے موسم میں جب ملک میں بجلی کا شارٹ فال تقریباً چھ ہزار میگا واٹ تک جا پہنچا ہے، 969 میگا واٹ کا پن بجلی منصوبہ ’نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ‘ پھر سے عارضی بندش کا شکار ہے۔

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے بیان کے مطابق 2008 سے پہلے شروع ہوئے اس پراجیکٹ کے آغاز پر اس منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ 840 ملین ڈالرز لگایا گیا تھا جبکہ یہ منصوبہ 5 ارب ڈالرز سے زائد کی لاگت سے مکمل کیا گیا۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ: آغاز سے اب تک

2018 میں اپنی پیدوار کا آغاز کرنے والے اس منصوبے کو چار سال بعد جولائی 2022 میں اس وقت عارضی بندش کا سامنا کرنا پڑا جب تین اعشاریہ 55 کلومیٹر ٹیل ریس ٹنل میں دراڑ پڑ گئی۔

سرکاری نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق 13 جولائی 2022 کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے دوران اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے سابق وزیر توانائی خرم دستگیر کو اس فالٹ کی فوری مرمت کے بعد بجلی کی فوری فراہمی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی اور اس تکنیکی خرابی پر برہمی کا اظہار کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے اس وقت اس واقع کی بین الاقوامی ادارے سے انکوائری کروائے جانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

ٹیل ریس ٹنل کی مرمت پر تقریباً 14 مہینے لگے اور ستمبر 2023 میں اس پراجیکٹ نے دوبارہ پیدوار کا آغاز کیا۔

9 اگست 2023 کو اس وقت کے وفاقی وزیر آبی وسائل خورشید شاہ نے اس پراجیکٹ کا مرمت کے بعد دوبارہ افتتاح کرتے ہوئے بٹن دبا کر بجلی کی پیداوار کا آغاز کیا۔ تاہم اب بھی مکمل پیداواری صلاحیت حاصل نہ ہو سکی۔

اس پراجیکٹ نے پہلی تکنیکی خرابی کے بعد مارچ 2024 میں مکمل پیداواری صلاحیت یعنی 969 میگا واٹ دوبارہ حاصل کی۔ لیکن 16 اپریل 2024 کو ایک بار پھر اس پراجیکٹ کو فنی خرابی کے باعث بند کرنا پڑا اور بندش پر اس پراجیکٹ سے پیدا ہونے والی بجلی کی ترسیل بھی رک گئی۔

انڈیپنڈنٹ اردو نے نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے حوالے سے سابق چیئرمین سینٹرل بورڈ آف ریوینیو (سی بی آر) فرحت علی میر سے بات کی ہے۔

فرحت علی میر دریائے نیلم (سابق کشن گنگا) پر بننے والے دونوں ممالک یعنی انڈیا اور پاکستان کے ڈیمز کے حوالے سے بنائے گئے بین الاقوامی ٹریبونل کا بھی حصہ رہ چکے ہیں۔ اسی سلسلے میں انہوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ بھی کیا جب کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے معاہدہ کا ڈرافٹ بھی بحثیت سیکرٹری قانون انہوں نے ہی بنایا تھا۔

فرحت علی میر کا کہنا ہے کہ ’سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ آزاد کشمیر میں پانی سے بننے والی بجلی کی صلاحیت کیا ہے؟ ہمارے ہاں تخمینہ شدہ صلاحیت آٹھ سے نو ہزار میگا واٹ ہے۔ صلاحیت ہونا ایک الگ بات ہے اور اسے استعمال کے قابل بنانا ایک الگ بات ہے‘۔

’واپڈا کے دو بڑے منصوبے آزاد کشمیر میں فنکشنل ہیں جن میں منگلا تقریباً 1200 میگا واٹ اور نیلم جہلم 969 میگا واٹ ہے۔ نیلم جہلم کے آغاز سے اس وقت تک اس سے جو بجلی کی پیدوار ہوئی ہے وہ 18 ارب یونٹس ہے لیکن اس پراجیکٹ کی دو بار بندش ہوچکی ہے۔ دو سال سے اس پراجیکٹ کی پیدوار یا تو بہت کم ہے یا مکمل طور بند ہے‘۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کی بندش سے یومیہ کتنا نقصان ہوتا ہے؟

بقول فرحت علی میر، اس پراجیکٹ نے 2018 سے اب تک 18 ارب بجلی کے یونٹس پیدا کیے ہیں۔ ان بجلی کے یونٹس کی یومیہ اوسط تقریباً 98 لاکھ یونٹس بنتی ہے۔

پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت کی مختلف سلیبز ہیں۔ ان تمام سلیبز کی اوسط تقریباً 30 روپے فی یونٹ بنتی ہے۔ اگر 30 روپے فی یونٹ کے حساب سے یومیہ نقصان کا اندازہ لگایا جائے تو نیلم جہلم پراجیکٹ کی ایک دن کی بندش سے تقریباً 29 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرحت علی میر سے جب اس اندازے کے حوالے سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا: ’ہمارے پاس جو بنیادی تفصیلات ہیں اس کے مطابق سے یومیہ تقریباً 29 کروڑ روپے کے نقصان کا اندازہ ٹھیک ہے‘۔

پاکستان اور کشمیر کی حکومتوں کے دوران معاہدوں کی غیر موجودگی

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے حوالے سے ماحول کے تحفظ اور واٹر یوزیج چارجز کی مد میں تاحال کوئی معاہدہ موجود ہی نہیں۔

فرحت علی میر کے مطابق جب وہ کشمیر کے سیکرٹری قانون تھے تو انہوں نے ان معاہدات کے مسودے بنا لیے تھے۔ لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود ان معاہدات پر دستخط نہیں ہو سکے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے بھی آن ریکارڈ موجود ہیں جس میں ریاستی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ جلد سے جلد ان معاہدات کی تکمیل کی جائے۔

فرحت علی میر کے مطابق ’اپنی سروس کے دوران ان معاہدوں کے معاملات پر پاکستان کے حکومتی وفود سے 50 سے زائد ملاقاتیں کر چکا ہوں‘۔

فرحت علی میر نے بتایا کہ ’آزاد کشمیر چونکہ پاکستان کا آئینی حصہ نہیں بلکہ ایک آزاد ریاست ہے اس لیے پاکستان کی وزارت خزانہ نے رائے دی تھی کہ انہیں نیٹ ہائیڈل پرافٹ نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ انہیں واٹر یوزیج چارجز دئیے جائیں گے۔ یعنی دریائے نیلم اور جہلم کا جو پانی استعمال ہو گا اس کی فیس ادا ہو گی‘۔

فرحت علی میر نے کہا کہ ’یہ 550 ارب کا پراجیکٹ ہے اور اس کے اوپر سرمایہ کاری گورنمنٹ آف پاکستان اور واپڈا نے کی ہوئی ہے۔ جس کے اوپر حکومت کشمیر کا واٹر یوزیج چارجز کا کلیم بنتا ہے جو معاہدہ ہونے کے بعد ایک روپیہ 10 پیسے یا ایک روپیہ 42 پیسے فی بجلی کے یونٹ کے حساب سے ممکن ہے‘۔

یعنی آسان الفاظ میں اگر اس پراجیکٹ سے یومیہ 98 لاکھ بجلی کے یونٹ پیدا ہوتے ہیں تو کشمیر کی حکومت ایک روپیہ 42 پیسے فی یونٹ کے حساب سے تقریباً ایک کروڑ 39 لاکھ روپے واٹر یوزیج چارجز یومیہ کی حق دار ہو گی۔

تاہم فرحت علی میر نے کہا کہ ’فی الحال معاہدے پر دستخط نہ ہونے کی وجہ سے یہ چارجز ابھی تک آزاد کشمیر کی حکومت کو ملے ہی نہیں‘۔

اس پراجیکٹ پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے فرحت علی میر نے کہا کہ اگر ایسے پراجیکٹس چلتے رہیں تو ’ان پراجیکٹس پر لگنے والا سرمایہ چار سے پانچ سال میں پورا ہو جاتا ہے‘۔

پراجیکٹ کی بندش پر وزیر اعظم شہباز شریف کی تشویش

وزیر اعظم شہباز شریف 16 مئی کو مظفر آباد کے دورے پر آئے تو نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کو دوسری بندش کا سامنا کرتے تقریباً ایک ماہ مکمل ہو چکا تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے پراجیکٹ کی بندش پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’2008 سے بھی کئی پہلے جب اس منصوبے کا خیال پیش کیا گیا تو اس وقت اس کا تخمینہ 840 ملین ڈالرز تھا۔ جو بڑھ کر 2018 میں پانچ ارب ڈالرز پر ختم ہوا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ دوسرا واقعہ ہے کہ اس منصوبے میں خرابی پیدا ہوئی۔ پہلی مرتبہ جولائی 2022 میں خرابی پیدا ہوئی جو ٹنل کے آخری حصے میں تھی۔ اپریل 2024 میں دوبارہ یہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ یہ بہت بدقسمتی ہے‘۔

’آئی پی او کے مطابق یہ خرابی بہت سی چیزوں کا مجموعہ ہے۔ میں ان کی بیان کی ہوئی وجوہات پر اعتراض نہیں کر رہا۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ڈیزائن میں خرابی تھی۔ تعمیر میں نقص تھا۔ جہاں پر کنکریٹ کی فلنگ ہونی چاہیے تھی وہاں پر مٹی سے بھرائی کی گئی۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اربوں ڈالرز لگنے کے باوجود ڈیزائن میں خرابی آ جائے؟‘

وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ ’کیا اتنے بڑے پراجیکٹ کے لیے کسی تھرڈ پارٹی سے رجوع کیا گیا؟ کیا تعمیراتی کمپنی کے کام کی تھڑد پارٹی سے جانچ کروائی گئی اور پھر اسے پیسوں کی ادائیگیاں ہوئیں؟‘

’اسی مہینے میں (مئی 2024) میں حتمی رپورٹ لے کر آئیں۔ یہ صرف میری بات نہیں ہے۔ صرف واپڈا کی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام کی قسمت اس سے جڑی ہوئی ہے۔ براہ راست ذمہ داروں کا تعین کرنا ہو گا۔ وہ جو بھی ہیں۔ چاہے تعمیراتی کمپنی ہے۔ ڈیزائنر ہے۔ ذمہ داروں کا تعین اب کرنا ہو گا‘۔

شہباز شریف نے یہ بھی ذکر کیا کہ پراجیکٹ کی تفتیش کے لیے تھڑد پارٹی متعین کرنے کے لیے بہت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ’کہا گیا کہ سر چھوڑیں۔ بہت وقت لگ جائے گا۔ واپڈا کے پاس ماہرین ہیں۔ انہیں سے کروا لیں۔ یہ کوئی بات ہے کہ جن لوگوں نے سب کچھ چلنے دیا انہیں سے (تفتیش) کروا لی جائے؟‘

وزیر اعظم نے اس موقعے پر ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دینے کا بھی ذکر کیا جو حتمی رپورٹ کے تناظر میں ماہرین کے ساتھ مل کر ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔

تاہم اس بات کو بھی ایک ماہ گزر گیا ہے اور حتمی رپورٹ کا تاحال انتظار ہے۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کب تک بحال ہو گا؟

نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ مظفر آباد سے 42 کلومیٹر دور نوسیری کے مقام پر ٹنل ٹیکنالوجی کے تحت بنایا گیا پن بجلی کا منصوبہ ہے۔

دریا کے پانی کو ٹنلز سے گزار کر ٹربائنز کے ذریعے بجلی کی پیداوار ممکن بنائی گئی ہے۔

پراجیکٹ میں خرابی کے بعد اس وقت ان ٹنلز سے پانی کے اخراج کا عمل جاری ہے۔ پراجیکٹ سے جڑے افسران نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پانی کے اخراج میں اب بھی کئی ہفتے درکار ہیں۔ جس کے بعد خرابی کا تعین کیا جائے گا اور بحالی کا عمل شروع ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان