پاکستان اور انڈیا کے درمیان سرحدیں پھلانگتی ریڈیو کہانیاں

پاکستان اور انڈیا کے درمیان سفارتی سردمہری اپنی جگہ لیکن دونوں ممالک کے ریڈیو پروگرام ٹیلیفون کالز کے ذریعے سامعین کو رابطے کا اب بھی موقع دیتے ہیں۔

تعلقات کی پیچیدگیوں کے باوجود، سرحد کے دونوں جانب ریڈیو سٹیشن موسیقی اور خبریں نشر کرتے رہتے ہیں جو سامعین کے دلوں میں گہرائی تک گونجتی ہیں (اوانتو)

1947 میں تقسیم ہند سے قبل خطے میں ریڈیو کی نشریات بنیادی طور پر برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے کنٹرول میں تھیں۔

تقسیم کے بعد انڈیا اور پاکستان دونوں نے اپنے اپنے سرکاری ریڈیو براڈکاسٹر قائم کیے: انڈیا میں آل انڈیا ریڈیو (AIR) اور پاکستان میں ریڈیو پاکستان۔ سرحدی تقسیم کے باوجود ریڈیو کے توسط سے اس خطے کی زبانیں، ثقافتیں اور موسیقی آپس میں جڑی رہیں۔

ایک ایسا خطہ جو اکثر سیاسی تناؤ اور تاریخی تقسیم کا شکار رہتا ہے، ریڈیو بطور میڈیم، پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک مشترکہ پل کی حیثیت سے آج بھی سامعین کو اکٹھا کرتا ہے۔

تعلقات کی پیچیدگیوں کے باوجود، سرحد کے دونوں جانب ریڈیو سٹیشن موسیقی اور خبریں نشر کرتے رہتے ہیں جو سامعین کے دلوں میں گہرائی تک گونجتی ہیں۔

سرحد کے دونوں جانب ریڈیو کے شائقین کی ایک خاموش برادری  موجود ہے جو ریڈیو سننے کے مشترکہ تجربے کے ذریعے سکون اور باہمی تعلق تلاش کرتی ہے۔

پاکستان انڈیا سرحد کی دونوں جانب پنجابی بولنے والے آباد ہیں۔ سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگ سرحد کے اس پار رشتہ دار یا ثقافتی روابط رکھتے ہیں اور وہ اپنے ورثے سے جڑے رہنے کے لیے پڑوسی ملک سے ریڈیو نشریات کو سن سکتے ہیں۔

انڈیا میں ریڈیو مواصلات کا ایک بنیادی ستون ہے جس میں حیرت انگیز طور پر 57.4 ملین افراد، جو کہ آبادی کے چار فیصد کے برابر ہیں، باقاعدگی سے ریڈیو سنتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں تقریباً پانچ ملین افراد، جو کہ آبادی کا تقریباً 2.35 فیصد بنتے ہیں، ریڈیو نشریات کے ساتھ منسلک ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ریڈیو مواد دونوں ممالک میں رابطے اور تفریح کے ذریعے اس میڈیم کی پائیدار مقبولیت اور اثر و رسوخ کا ثبوت ہے۔

اشعر پیشے سے ڈرائیور ہے اور لاہور کی ایک نجی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ انہیں انڈیا کے ریڈیو ایف ایم چینلز سننے کا شوق ہے۔

گاڑی چلاتے ہوئے کام پر ایک مصروف دن کے دوران، اشعر لیجنڈری انڈین گلوکار کشور کمار کا مشہور گانا ’منزلین اپنی جگہ ہیں، راستے اپنی جگہ‘ سننا چاہتے تھے۔

شدید گرمی ہو، تیز بارش یا دھند سے اٹی شاہراہیں، بند گاڑی کے دروازوں میں اشعر کا واحد ساتھی ریڈیو اور اس سے آنے والی صدا ہوتی ہے۔

اس وقت گاڑی کے ریڈیو پر انڈین ایف ایم چینل کے گانے چل رہے تھے۔ انہوں نے اپنے موبائل سے دیئے گئے نمبر پر ٹیکسٹ کیا اور اپنا من پسند گانا نشر کرنے کی خواہش ظاہر کی۔

گاڑی لاہور کی سڑکوں پر ابھی ایک کلومیٹر ہی گئی تھی کہ ریڈیو میزبان کی آواز سنائی دی، ’لاہور سے ہمارے سامع اشعر نے گانے کی فرمائش کی ہے، ہم آپ کو ان کا پسندیدہ گانا سنائیں گے‘ اور کشور کمار کا گانا ’منزلیں اپنی جگہ ہیں، راستے اپنی جگہ‘ سنائی دینے لگا۔

اشعر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ آج یہ گانا سن کر انہیں ان کی دن بھر کی ڈرائیونگ کی تھکن آہستہ آہستہ ختم ہوتی محسوس ہوئی۔

صرف پاکستان میں اس وقت 175 کمرشل ریڈیو اور 60 غیر تجارتی ریڈیو سٹیشنز کام کر رہے ہیں جو مختلف برادریوں اور اداروں کی خدمت کر رہے ہیں۔

انڈیا کا ریڈیو منظرنامہ ذرا مختلف ہے۔ وکی پیڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کے 107 شہروں میں پھیلے 371 پرائیویٹ ایف ایم سٹیشنز اور سپیشل کمیونٹی کی ضروریات کو پورا کرنے والے اضافی 372 کمیونٹی ریڈیو سٹیشنز کے ساتھ، ملک کا ریڈیو لینڈسکیپ اس کی آبادی کی طرح متنوع ہے۔

سرحد پار چندی گڑھ سے ہیر بگ ایف ایم 92.7 پر ریڈیو میزبان رہ چکی ہیں۔

امرتسر اور چندی گڑھ کے ساتھ ساتھ ان کے سامعین نے یکم جنوری کو لاہور کے ایف ایم ریڈیو سٹیشن کے سٹوڈیوز میں نیو ایئر پر اپنی پسندیدہ انڈین ریڈیو میزبان ہیر کی سالگرہ منائی۔

ہیر کے لیے یہ لمحات یادگار ہیں۔ انہیں افسوس ہے کہ وہ اپنے پاکستانی سامعین سے اس طرح نہیں مل پائیں جس طرح وہ انڈیا میں اپنے سامعین سے ملتی ہیں۔

امرتسر کے ہلچل والے شہر میں مریضوں کے دانتوں کا معائنہ کرتے اور طبی مشورے کے درمیان، ڈاکٹر سلیل اروڑا کثیر الجہتی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک دانتوں کے ڈاکٹر کے طور پر اور دوسرا عالمی واقعات اور عوامی گفتگو کے شوقین ریڈیو سامع کے طور پر۔

لاہور سے ’اپنا ایف ایم‘ پر ریڈیو میزبان عدیل اظہر کی میزبانی میں پروگرام، امرتسر میں سلیل کے کلینک کے معمول کا حصہ بن چکا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں ریڈیو کی لہروں پر خبریں نشر کرنے پر پابندی ہے، عالمی امور پر بات کرنے کے لیے عدیل اظہر کا اختراعی انداز اور اپنے پروگرام میں پاکستانی اخبارات کا مطالعہ، ڈاکٹر اروڑہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کر لیتے ہیں۔

منفرد فارمیٹ، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے سامعین کے براہ راست رابطے کو پروگرام کا حصہ بناتا ہے، ڈاکٹر سلیل کو اپنے مصروف شیڈول سے تھوڑی رخصت دیتا ہے۔

ڈاکٹر اروڑا کو کبھی کبھار پاکستان سے آنے والے ریڈیو سگنلز میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا خاص طور پر امرتسر کی سڑکوں پر ڈرائیونگ کے دوران ہوتا ہے۔ تاہم، فیروز پور میں اپنے سسرال میں سرحد پار سے آنے والے مضبوط سگنز ان کا پاکستانی ایف ایم چینلز سننے کا شوق پورا کر دیتے ہیں۔

ڈاکٹر اروڑا کے لیے، بجلی، پانی اور سڑکوں کے مسائل، انڈیا کی طرح پاکستان کے بھی اہم سنگین ہیں جس سے بظاہر لگتا ہے کہ سرحد کی دونوں جانب عوامی مسائل میں کوئی فرق نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر اروڑا کی کہانی میں غیرمتوقع موڑ اس وقت آیا جب ان کے پسندیدہ ریڈیو میزبان عدیل اظہر نے اپنے سوشل میڈیا پر انڈیا جانے کا ذکر کیا۔ موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ڈاکٹر اروڑا نے عدیل سے رابطہ کیا اور انہیں ذاتی طور پر ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

انڈیا میں پھر ڈاکٹر اروڑا کی عدیل اظہر سے ’گرم جوش‘ ملاقات ہوئی۔ انہوں نے عدیل اظہر کو واپسی کے لیے مٹھائیاں دیں۔ اس ملاقات نے ڈاکٹر اروڑا پر ایک دیرپا تاثر چھوڑا۔ ایسا تاثر جس نے پہلے سے موجود تصورات کو توڑا اور سرحد کے اس پار پاکستان میں لوگوں کی دوستانہ فطرت پر ان کے یقین کو تقویت بخشی۔

اپنے تجربے کی عکاسی کرتے ہوئے، ڈاکٹر اروڑا لوگوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ رابطے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے دونوں طرف سے مثبت ریڈیو نشریات کی وکالت کرتے ہیں۔

سکول اور تعلیمی سرگرمیوں کے شور کے درمیان، دہلی کے پرشانت سہگل ثقافتی روابط کے لیے کوشاں ہیں۔ آدرش پبلک سکولز کے پرنسپل کے طور پر وہ شعبہ تعلیم میں اپنی میراث کو آگے بڑھا رہے ہیں جس کا لاہور میں ان کے دادا نے آغاز کیا تھا۔

سہگل خاندان کا لاہور سے تعلق 1934 سے ہے جب پرشانت کے دادا نے نسبت روڈ پر ایک نجی سکول کی بنیاد رکھی تھی۔ یہی دیرپا تعلق ہے جو پرشانت کے پاکستان کے ثقافتی منظرنامے کو، خاص طور پر ریڈیو کے ذریعے دریافت کرنے کے تجسس کو جنم دیتا ہے۔

پاکستانی ایف ایم چینلز سے تعارف کا پرشانت کا سفر اس وقت شروع ہوا جب انہیں دہلی سے فیس بک لائیو سٹریمز کے ذریعے ٹیون ان کرنے کا موقع ملا۔ تب سے وہ پاکستانی ایف ایم چینلز کے ایک باقاعدہ سامع ہیں۔ انہیں پاکستانی ریڈیو میزبان بلاول، حنا اور آصف ملک کے ریڈیو پروگرام بےحد پسند ہیں۔

دہلی میں پاکستانی ایف ایم سگنلز کی عدم دستیابی کے باوجود پرشانت کو امرتسر میں رشتہ داروں سے ملنے کے دوران پاکستانی ایف ایم چینلز سننے کا موقع ملتا ہے۔ اس دوران وہ پاکستانی موسیقی شوق سے سنتے ہیں۔

دلکش دھنوں کے علاوہ پرشانت پاکستانی ریڈیو کو بات چیت اور تبادلے خیال کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس تبادلے کے ذریعے دل آپس میں جڑ سکتے ہیں، اختلافات ختم ہو سکتے ہیں اور مشترکہ افہام و تفہیم، ہم آہنگی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

تقریباً دو دہائیوں سے پاکستانی ریڈیو میزبان عدیل اظہر ریڈیو جاکی کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

وہ یوٹیوب چینلز اور پوڈکاسٹ جیسے متبادل پلیٹ فارمز کے تقویت پانے سے درپیش چیلنجوں کو تسلیم کرتے ہوئے ریڈیو صنعت کی بدلتی ہوئی صورت حال سے آگاہ ہیں۔

ان تبدیلیوں کے باوجود، عدیل اظہر رابطے اور مکالمے کے لیے ریڈیو کی طاقت کے استعمال کے لیے پرعزم ہیں۔ عدیل اظہر اپنے پروگراموں میں شامل ہونے کے خواہش مند انڈین سامعین کی طرف سے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں بہت خوشی ہوتی ہے جب سرحد پار سے سامعین ان کے پروگرام میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

عدیل اظہر کہتے ہیں کہ ’دہلی میں نربھیا ریپ کیس کے دوران پاکستانی اور انڈین سامعین دونوں کے ردعمل نے انہیں بےحد متاثر کیا۔ ’پروگرام میں انڈین اور پاکستانی ریڈیو سامعین نے اس واقعے کی مذمت کی۔ سامعین نے زور دیا کہ خواتین کو بھی مردوں کی طرح برابری سے گھومنے پھرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔‘

وہ اپنے انڈیا کے دورے کے تجربات، گرم جوش مہمان نوازی اور پائیدار دوستی کو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’آج بھی انہیں انڈین دوستوں کے پیغامات موصول ہوتے رہتے ہیں جو سیاسی امور سے لے کر ثقافتی موضوعات تک کے مباحثوں پر اپنی رائے دیتے ہیں۔‘

تقریبا دو دھائیوں سے ریڈیو پرگرام کرنے والے عدیل اظہر پاکستان اور انڈیا کے درمیان بہتر تعلقات کے امکانات کے بارے میں پرامید ہیں۔ ’دو قوموں کو الگ کرنے والے علامتی ’آہنی پردے‘ کو ختم کرنے کے لیے زیادہ افہام و تفہیم اور تعاون کے باہمی فروغ کی ضرورت ہے۔ ثقافتی تبادلے اور سفارتی شمولیت کے ذریعے مشترکہ ریڈیو شوز کی تجویز پیش کرتے ہوئے، عدیل کہتے ہیں کہ ریڈیو مثبت تبدیلی اور باہمی دوستی کے لیے ایک مضبوط ذریعہ بن سکتا ہے۔‘

پاکستانی ریڈیو میزبان حنا ادیب جاویدانی بھی تقریباً دو دہائیوں سے ریڈیو سے وابستہ ہیں۔

وہ ریڈیو میزبان ہونے کو ایک براڈکاسٹر سے ذیادہ ایک آرٹ کے طور پر دیکھتی ہیں۔ ان کے نزدیک ریڈیو براڈکاسٹنگ ایک فن ہے جس کی مہارت سیکھنے اور تعلیم حاصل کرنے سے آ سکتی ہے۔

حنا ریڈیو کے میڈیم کو ان کی سرحد پار فین فالوونگ کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ ’پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈیا میں بھی ان کے بہت سے سامعین ہیں۔ وہ نہ صرف میرے پروگرام سنتے ہیں بلکہ اپنی رائے بھی دیتے ہیں۔‘

اپنے دہلی کے دورے کو یاد کرتے ہوئے وہ ان لوگوں کی طرف سے دی گئی زبردست محبت اور مہمان نوازی کا ذکر ضرور کرتی ہیں۔

انڈیا میں اپنے قیام کے دوران حنا کو ایک یونیورسٹی کی جانب سے مدعو کیا گیا جہاں انہیں نہ صرف طالبہ کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا بلکہ انہیں ریڈیو پروگراموں کی میزبانی کا منفرد شرف بھی حاصل ہوا۔

دہلی میں پروگرام کرنے والی پہلی پاکستانی ریڈیو براڈکاسٹر کے طور پر وہ سمجھتی ہیں کہ ’ریڈیو ثقافتی تبادلے کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ مجھے دہلی کی ایک یونیورسٹی کی جانب سے پی ایچ ڈی کرنے کی ایک غیر متوقع آفر بھی کی گئی۔‘

سچن ساہنی، دہلی میں مقیم ایک تجربہ کار ریڈیو پریزینٹر ہیں اور وہ ریڈیو براڈکاسٹنگ کے بارے میں حنا ادیب جاویدانی کے نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں۔

ریڈیو سے اپنی وابستگی کے 26 سال سے زیادہ کے تجربے کے ساتھ، ساہنی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ’ریڈیو براڈکاسٹنگ درحقیقت ایک فن ہے اور ریڈیو میزبان معلومات کے مشعل بردار ہوتے ہیں۔ ریڈیو اظہار کا ایک طاقتور ذریعہ ہے جو ڈیجیٹل دور کے تیز رفتار ارتقا کے درمیان بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔‘

سچن ساہنی پاکستان کے نامور فنکاروں جیسے شفقت امانت علی اور کوک سٹوڈیو کے فنکاروں کی موسیقی سے بےحد متاثر ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ موسیقی کی طاقت سرحدوں کو عبور کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف کلچر کے سامعین کو متحد کر سکتی ہے۔

ایک ریڈیو میزبان کے طور پر سچن سمجھتے ہیں کہ ان کی کمیونٹی ’عالمی بھائی چارے کی علم بردار‘ ہے جو دونوں ممالک کے درمیان پرامن تبادلے اور باہمی مفاہمت کو فروغ دے سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’سیاست ناگزیر ہے لیکن فنکار کا کام سیاست سے دور رہ کر اپنے سامعین کو ایسا مواد پیش کرنا ہے جو ان کی خوشی میں اضافے کا سبب بنے اور ان کی زندگیوں میں نیا پن لائے۔‘

اپنی تکنیکی صلاحیت سے ہٹ کر ریڈیو براڈکاسٹنگ اپنے خالص ترین معنوں میں ایک فن ہے۔ اگرچہ یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر پوڈکاسٹنگ نے بلاشبہ اپنی جگہ بنائی ہے تاہم ریڈیو نشریات اب بھی سامعین کو مسحور کرتی اور اسے کسی اچھے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی طاقت دیتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین