’میرا گھر لوئر دیر میں سکاؤٹس چھاؤنی کے بالکل قریب ہے، جہاں ہیلی پیڈ کی سہولت بھی موجود ہے۔ آج تین چار ہیلی کاپٹرز آئے۔ یہاں کبھی کبھی ہیلی کاپٹرز آتے ہیں۔ میں سمجھا آج بھی کوئی سرکاری افسر آیا ہو گا۔ لیکن بعد میں پتا چلا یہ تو گن شپ ہیلی کاپٹرز تھے۔‘
یہ کہنا تھا ایک عینی شاہد کا جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو 22 جون سے لوئر دیر کی تحصیل میدان میں ہونے والے سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے لیے آنے والے ہیلی کاپٹرز سے متعلق آنکھوں دیکھا حال بتایا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’صبح سے ہیلی کاپٹرز آئے ہوئے تھے اور ہوا میں متعدد بار چکر لگا رہے تھے۔ لیکن کسی کو بھی اس وقت یہ خیال نہیں تھا کہ یہ کسی آپریشن کے لیے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’صبح سے شام دیر تک ہیلی کاپٹرز آتے اور جاتے رہے لیکن دوپہر کے وقت سوشل میڈیا سے پتہ چلا کہ لوئر میدان میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے۔‘
اس کارروائی کے بارے میں پاکستان فوج کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا ہے جبکہ انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے بھی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) سے رابطہ کیا تاہم فی الحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
تاہم خیبر پختونخوا کے ضلع لوئر دیر کی تحصیل میدان میں پولیس کے مطابق ’تین روز سے لوئر دیر اور افغانستان کی سرحد پر جاری سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں روک دی گئی ہیں۔ تاہم سرچ آپریشن اب بھی جاری ہے۔‘
پولیس کے مطابق کارروائی مکمل ہونے کے بعد مزید تفصیلات جاری کی جائیں گی۔
لوئر دیر پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپوں میں چھ شدت پسندوں کو مارا گیا، جب کہ سکیورٹی فورسز کے تین اہلکار جان سے گئے ہیں۔‘
سینیئر اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ آپریشن لوئر دیر کے سرحدی علاقوں ماموتے، شاہی اور سوری پاؤ میں کیا گیا، جہاں شدت پسندوں کی افغانستان سے آمد کی اطلاعات تھیں۔‘
دوسری جانب سکیورٹی فورسز کے ذرائع کے مطابق تحصیل میدان میں سرحد پر انٹیلجنس کی بنیاد پر آپریشن میں گن شپ ہیلی کاپٹرز کا بھی استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں شدت پسندوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
سکیورٹی فورسز کے ذرائع کے مطابق فضائی ’آپریشن اب معطل کر دیا گیا ہے لیکن زمینی سرچ آپریشن جاری ہے کیونکہ گذشتہ رات فائرنگ رپورٹ ہوئی تھی اور اسی وجہ سے علاقے کو ابھی تک کلیئر نہیں کیا گیا۔‘
ادھر لوئر دیر کے مرکزی شہر تیمرگرہ میں ایک مقامی تنظیم دیر اولسی پاسون کے زیر اہتمام علاقے میں امن قائم کرنے کے لیے ایک احتجاجی مارچ کا اہتمام کیا گیا۔ اس احتجاجی مارچ میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی اور شدت پسندی کی مذمت کی گئی۔
پاکستانی حکومت کئی مرتبہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے شدت پسندوں کا افغانستان سے پاک افغان سرحد کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کرنے کا الزام لگا چکی ہے لیکن کابل میں افغان طالبان انتظامیہ اور ٹی ٹی پی اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔
اس تازہ آپریشن کے دوران لوئر دیر کے باقی تمام علاقوں میں کسی قسم کی روڈ بندش، ناکے یا کرفیو نہیں لگایا گیا بلکہ زندگی معمول کے مطابق رواں دواں رہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس علاقے میں سکیورٹی فورسز نے آپریشن کیا وہاں کے ایک اور رہائشی نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ علاقے میں سکیورٹی فورسز کی موومنٹ گذشتہ ہفتے (22 جون) سے تھی لیکن مقامی لوگوں کو غیر معمولی حالات کا اندازہ نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ایک تو عید کی چھٹیاں تھیں اور لوگ مذہبی تہوار (اور چھٹیاں) منانے میں مصروف تھے، جب کہ علاقے میں موبائل سگنلز بھی بند تھے۔ لیکن کسی کو سگنلز کی بندش کی وجہ معلوم نہیں تھی۔ کسی نے اس طرف دھیان بھی نہیں دیا ہے۔‘
رہائشی نے مزید بتایا کہ ’لوئر دیر کے سرحدی علاقے شاہی سے پہلے اطلاع ملی کہ آپریشن ہو رہا ہے اور پھر ہمارے مکان کے سامنے سوری پاؤ پہاڑی میں ہیلی کاپٹرز کی پروازیں شروع ہو گئیں۔‘
آپریشن کی اطلاع پھیلی تو رہائشی کے مطابق لوگوں میں 2008 والا خوف پیدا ہو گیا کیونکہ اس وقت کارروائی کی وجہ سے بڑی تعداد میں مقامی خاندان بےگھر بھی ہوئے تھے۔
تحصیل میدان لوئر دیر کے مرکزی بازار تیمرگرہ سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کا آبائی علاقہ ہے۔
ماضی میں بھی جب صوبے میں شدت پسندی عروج پر تھی تو شدت پسندی سے لوئر دیر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ میدان تھا، جہاں عسکریت پسند موجود تھے جن کے خلاف سکیورٹی فورسز نے آپریشن بھی کیا تھا۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے گذشتہ تین دنوں سے جاری آپریشن کے حوالے سے میڈیا کو جاری اپنے ایک پیغام میں ضلع دیر کے عوام کو تنبیہ دی ہے کہ وہ طالبان کے خلاف ’امن کمیٹی‘ بنانے اور ’لشکر کشی‘ سے گریز کریں۔